وجود زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
مجھے وہ وقت یاد ہے جب میرے والد کی ماہانہ تنخواہ آتی تھی اور وہ پوری کی پوری میری والدہ کے ہاتھ میں چلی جاتی تھی۔ کیا خریداری کرنی ہے، کہاں کہاں جانا ہے، کیا پکانا ہے اور کتنا پکانا ہے سب پر حکم میری والدہ کا ہی چلتا تھا۔ بغیر کسی شک و شبے اور اختلاف کے گھر کی سربراہ میری والدہ ہی تھیں۔ صرف میرے نہیں پاکستان کی اکثریت شہری آبادی میں گھر کی سربراہ خواتین ہی ہوتی ہیں۔
اللہ نے ہر جنس کو فطرت کے مطابق پیدا کیا ہے اور اُسی کے مطابق زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے بگاڑ تب پیدا ہوتا ہے جب ہم عین فطرت کے خلاف جا کر کوئی ایسا عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی اجازت نہ تو قدرت دیتی ہے نہ ہی معاشرے کی اکثریت۔
خواتین مارچ کرتی رہیں اُن کا حق ہے لیکن ہر کام کا ایک ڈھنگ ایک سلیقہ ہوتا ہے۔ اللہ کی کتاب بتاتی ہے انسان جلد باز ہے اور خسارے میں بھی۔ خواتین میرا جسم میری مرضی نعرہ اگر اس لیے لگا رہی ہیں کہ اُنہیں اُن کی پسند سے شادی کا حق دیا جائے تو بلکل درست ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک خاتون آئی اور کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد نے میری زبردستی شادی کروادی میرا شوہر مجھے پسند نہیں کیا اُس سے علیحدگی اختیار کرسکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلکل تمھاری اگر زبردستی شادی ہوئی اور تمھیں تمھارا شوہر پسند نہیں تو تم اُس سے علیحدگی اختیار کر سکتی ہو۔ لیکن ان چند خواتین کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے جسم کو جہاں چاہیں جیسے چاہیں استعمال کریں تو پھر معاشرے کا کوئی بھی باشعور انسان اسے تسلیم نہیں کرے گا خود خواتین بھی اس منطق سے اختلاف کریں گی۔
خواتین کو اُن کے حقوق ضرور ملنے چاہیے لیکن جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہاں خواتین کو حقوق حاصل ہیں اورنہ ہی مرد کو۔ پاکستان کی اکثریت کا مسئلہ میرا جسم میری مرضی نہیں بلکہ روٹی، کپڑا، مکان، روزگار، صحت، تعلیم، سڑک اور ٹرانسپورٹ وغیرہ ہے۔ ڈھائی کروڑ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں، پچاس فیصد سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن ہمارا میڈیا اور معاشرہ کس بحث میں لگا ہے کہ عورت مارچ ہو کہ نہیں۔
اقبال نے کہا تھا
وجوِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
حقوق نسواں اور آزادیِ نسواں سے پہلے عورت کی عظمت، حرمت، عزت، تکریم,بلندی اور توقیر کی بات ہونی چاہیے …… عورت کے وجود سے ہی کائنات کی رنگینیاں، شوخیاں، مسرتیں اور خوشیاں ہیں۔ سوچیں اگر ماں نہ ہو تو پیار کسے کہتے ہیں قربانی کیا ہے ہمیں علم ہی نہ ہوتا۔ اگر بہن نہ ہو تو بچپن کی شرارتیں مستیاں اور والدین سے چُھپ چُھپ کر ہماری مدد کون کرے ہماری کامیابی پر سب سے زیادہ فخر کون کرے؟ سوچیں بیٹیوں کا وجود نہ ہو تو وہ خوشی، وہ راحت کہاں سے میسر ہو جو صرف بیٹیوں کے ہنستے چہرے دیکھ کر ایک باپ کو میسر ہے۔ اگر بیویاں نہ ہو تو آپکا ہمسفر، آپکے دکھ سکھ کا ساتھی آپ کا سب سے بڑا سپورٹر کون ہو؟ سوچیں یہ رشتے نہ ہوں تو زندگی کتنی بے رنگ، بدمزہ اور بے ترتیب ہو۔
دنیا میں ہر جگہ قوائد و ضوابط ہوتے ہیں اسی طرح زندگی گزارنے کے بھی طور طریقے اور کچھ قوانین ہیں۔ اصولوں سے انحراف کرنے والا انسان زندگی کی ریس میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ دنیا کے قوانین کی پاسداری نہ کرنے والا شخص سزا کا حقدار ہوتا ہے اسی طرح قدرت کے بنائے گئے قوانین کو توڑنے والا بھی سزا پاتا ہے بس انسان کو احساس دیر سے ہوتا ہے۔ معاشرے کی بہتری اسی میں ہے کہ مرد اور عورت دونوں اپنی حدود میں رہیں، دونوں ایک دوسرے کا احترام کریں۔ آنے والی نسلوں کو ہم اس لاحاصل بحث میں الجھانے کے بجائے ایک ایسا حقیقی معاشرہ تعمیر کرکے دیں جہاں ترقی اور خوشحالی ہو، انصاف اور تعلیم ہو۔ ہیجان اور کنفیوژن کا شکار قومیں کبھی ترقی نہیں کرتی یہی تاریخ بتاتی ہے اور یہی قدرت کااصول ہے۔