مقصد کی تلاش اور والٹیر
ہم سب بامقصدی زندگی کو بے سمت زندگی پر ترجیح دیتے ہیں، مگر جب کبھی ہم کوئی مقصد متعین کرتے ہیں، تو اس کا حال نیو ایئر ریزولوشن جیسا ہوتا ہے، چند روز بعد ہم اسے بھول چکے ہوتے ہیں۔
مقصد کا تعین آسان ہے، مگر اس پر جمے رہنا ذرا مشکل ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ آپ اور میں، لگ بھگ ہم سب اپنے اپنے تئیں یہ جانتے ہیں کہ نواز شریف کو خود میں بہتری کے لیے کیا کرنا چاہیے ۔ ۔ ۔
بلاول بھٹو کو کیا اقدامات کرنے ہوں گے ۔ ۔ ۔ عمران خان خود میں کیا تبدیلیاں لا کر موثر حکم راں بن سکتے ہیں؟
البتہ اگر سوال یہ ہو کہ ہمیں خود میں بہتری لاںے کے لیے، ایک مقصدی زندگی گزارنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟ تو ہم خود کو لاعلمی کی دلدل میں کھڑا پاتے ہیں۔
یا تو ہم خود کی بابت بہت جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔
ہم کون ہیں؟ کیا چاہتے ہیں؟ ہماری کیا خواہشات ہیں؟ منزل کیا ہے؟
اس ضمن میں ہم قطعی واضح نہیں۔ متذبذب ہیں، ابہام کا شکار ہیں۔
ہم میرا دوست راشد پر تین صفحات کا مضمون تو لکھ دیں گے، اسے بیان کریں گے، اسے مشورے دیں گے، مگر ہم خود کیا ہیں؟ اس پر ہم ایمان داری سے تین پیرگراف بھی نہیں لکھ سکتے۔
کیوں کہ ہم اپنی بابت، اپنے نظریات اور اقدار کی بابت واضح نہیں، اس لیے ایک مستقل مقصد کی بحث کبھی
سر نہیں اٹھائے گا، اور اٹھائے گی بھی تو جلد سو جائے گی۔
پھر زندگی اتنی غیر یقینی، تیز رفتار اور الجھی ہوئی ہے کہ کوئی طویل المدت پروگرام نہیں ہوسکتا۔
بس یہی موزوں کہ ہر روز، ہر شعبے میں اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا جائے۔
جیسے والٹیر نے کاندید میں کہا ہے: ہمیں بلاں چوں و چرا کام میں مصروف رہنا چاہیے، یہی حالات کو قابل قبول بنانے کا اکلوتا طریقہ ہے۔