جسٹس فائز عیسیٰ کیس، وفاق سے تحریری معروضات طلب
اسلام آباد: عدالت عظمیٰ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر مرکزی حکومت سے تحریری معروضات طلب کرلی ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
دوران سماعت حکومتی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ 10 اپریل 2019 کو وحید ڈوگر نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو شکایت بھیجی۔ 8 مئی کو وحید ڈوگر نے لندن پراپرٹیز کے حوالے سے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو خط لکھا، وحید ڈوگر نے خط میں لندن پراپرٹیز کی قیمت خرید اور مارکیٹ ویلیو کے بارے میں بتایا، 1988 کے بعد برطانیہ میں ہر پراپرٹی کا ریکارڈ اوپن ہے، اے آر یو کو قانون کی سپورٹ حاصل ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم نے یہاں دیکھا ہے کہ غیرملکی جائیداد کو ٹرسٹ کے ذریعے چھپایا گیا، جس پر فروغ نسیم بولے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینک ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ دکھا دیں، میرا ایک سطر کا جواب ہے کہ منی لانڈرنگ سنگین جرم ہے۔
فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے بچوں اور اہلیہ نے بھی لندن کی پراپرٹی ظاہر نہیں کی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے 2014 میں آمدن 9285 روپے ظاہر کی۔ 2011 اور 2013 میں بچے تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کیسے مہنگی پراپرٹی خرید سکتے تھے، بلاشبہ قاضی خاندان امیر ہے لیکن ریکارڈ زرعی زمین پر زرعی ٹیکس ظاہر نہیں کرتا، ایف بی آر نے خوف کی وجہ سے ٹیکس کے معاملے پر جج کے خلاف کارروائی نہیں کی، ایف بی آر حکام کو خوف تھا جج کے خلاف کارروائی کی تو انہیں کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سیکشن پانچ کے تحت جج کے لیے ایسی پابندی نہیں کہ وہ غیر ملکی جائیداد ظاہر کرے۔ کسی کے خلاف مناسب مواد کی موجودگی کو قانون سے ثابت کرنا ہوتا ہے، ریفرنس کی بدنیتی اور اے آر یو کی قانونی حیثیت پر سوالات پوچھے گئے ہیں، اگر صدارتی ریفرنس میں نقص ہیں تو کونسل سوموٹو کارروائی کرسکتی یے، کیا جوڈیشل کونسل صدارتی ریفرنس پر کارروائی کی پابند ہے، فرض کرلیں یہ ایک کمزور ریفرنس ہے، جس کے پس پردہ مقاصد ہیں، کیا کونسل ایسے ریفرنس پر کارروائی کرنے کی پابند ہے، کیا کونسل ریفرنس میں کمی کوتاہی نظرانداز کرکے کارروائی کرسکتی ہے، سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے تحریری معروضات طلب کرتے ہوئے سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔