اسٹیل ملز بحران: ذمے دار کون؟
ن لیگ کے دور حکومت میں جب وزیر خزانہ نے پاکستان اسٹیل ملز کو ایک روپے میں فروخت کرنے کا سنسنی خیز بیان دیا، تو ٹی وی چینلز نے اسے بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کرنا ضروری جانا۔
اور ایسی ہی صورت حال نے تب جنم لیا، جب پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے اسٹیل ملز کی نجکاری، پینشن اور ملازمین کو برخاست کرنے کے اعلانات کیے گئے۔
آج یہ فیصلہ کڑی تنقید کی زد میں ہے، مگر حکومت اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر اپنے چار جون کے بیان میں اسٹیل ملز کے ملازمین کو برخاست کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں، جس سے حکومت کو تنخواہوں اور سود کی مد میں 70 کروڑ روپے ماہانہ کی بچت ہوگی۔
یہ فیصلہ پریشان کن اور وزیر اعطم کے ماضی کے بیانات سے متصادم تو ہوسکتا ہے، مگر غیر متوقع نہیں، کئی تجزیہ کار اس کے حق میں ہیں۔ ان کے دلائل کے پیچھے وہ خسارہ اور بھاری قرضے ہیں، جن کے باعث یہ میگا انفراسٹریکچر، جو کبھی ہمارا قومی فخر تھا، ڈھ گیا۔
قصہ کچھ یوں ہے صاحب کہ پاکستان اسٹیل ملز پر اس وقت 585 ارب روپے کا قرضہ اور خسارہ ہے، اور ان بھاری قرضوں تلے یہ ادارہ اپنے 9350 ملازمین کو 35 کروڑ روپے تنخواہوں کی مد میں ادا کررہا ہے۔ میڈیکل، ٹرانسپورٹ اور سود پر آنے والے اخراجات بھی ارب کا ہندسہ عبور کر جاتے ہیں۔
طریقہ کار پر اختلاف ہوسکتا ہے، مگر ان حالات میں جب ایک طرف کورونا بحران ہے، دوسری طرف حکومت کو درپیش چیلنجز، اسٹیل مل کے معاملے میں نجکاری اکلوتا راستہ دکھائی دیتا ہے۔ اسے فعال کرنے کا ایک طریقہ اور ہے، گو یہ سہل نہیں۔ (اس پر ہم آخر میں بات کریں گے)
بہت سوں کو خبر نہیں، مگر یہ ادارہ ایک عرصے سے مسائل کا شکار ہے، تنخواہوں میں تاخیر، پینشنرز کے مسائل، اور اس پر مستزاد سیاسی بنیادوں پر ہونے والی بھرتیاں۔
ایک اندازے کے مطابق ان ملازمین کی تعداد چار ہزار کے لگ بھگ ہے، بھرتیوں کا الزام سندھ سرکار پر عاید ہوتا ہے۔ اگر اسٹیل ملز نامی یہ جہاز ڈوب رہا ہے، تو ایک سبب اضافہ بوجھ بھی ہے۔
اس بحران کا اصل ذمے دار کون ہے؟
اس کا سادہ سے جواب ہے: ماضی کے حکمران، جو موثر پالیسوں کے اطلاق میں ناکام رہے۔ تین تین بار وفاقی حکومت سنبھالنے والی جماعتوں پر بھاری ذمے داری عاید ہوتی ہے۔
پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ نفع میں جانے والا یہ ادارہ پیپلزپارٹی کے دور میں پہلے پہل خسارے میں گیا، ن لیگ کے زمانے میں حالات اتنے دگرگوں تھے کہ اسے بند کر دیا گیا۔
موقف اتنا غلط بھی نہیں۔ گزشتہ 5 برس میں ایک جانب جہاں پاکستان اسٹیل ملز کی پیداوار میں واضح کمی آئی، وہیں تنخواہوں کی مد میں 35 ارب روپے ادا کیے گئے، ادارے کو 90 ارب کابیل آؤٹ پیکج ملا، مگر بات نہیں بنی۔
سرکار نے ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک دینے کا فیصلہ کیا ہے، پیکیج کا تخمینہ 18 ارب روپے ہے، اندازے کے مطابق ہر ملازم کو 23 لاکھ روپے ادا کیے جائیں گے۔ تلافی کی یہی قابل قبول صورت ہے۔
حکومتی فیصلے پر تنقید سہل، مگر ناقدین کو سمجھنا ہوگا کہ اسٹیل ملز بحران کے پیچھے ماضی کے غلط فیصلوں کی طویل قطار ہے۔ جن میں کرپشن، نااہلی اور جعلی ملازمین سر فہرست ہیں۔
اگر پاکستان اسٹیل ملز میں مینوفیکچرنگ اور پروسیسنگ کا عمل دوبارہ شروع کرنا ہے، تو اسے بدعنوانی کے ناسور سے پاک کرنا ہوگا۔ نجکاری سے بچنے کا یہ مشکل، مگر دیرپا طریقہ ہے۔