مجھے سلطان محمد علی صاحب کیوں اچھے لگتے ہیں؟
لئیق احمد
سلطان محمد علی صاحب جس خاندان سے ہیں۔ وہ پاک و ہند کے مشہور ترین اور قدیم خانوادوں میں سے ہے، ہمیشہ سے اس خانوادے کے لوگ ایچی سن کالج اور اس طرح کے ایلیٹ اداروں میں پڑھتے آئے ہیں اور آج بھی پڑھ رہے ہیں۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ سلطان محمد علی صاحب کے اپنے بچے اور ان کے بھائیوں (سلطان احمد علی صاحب اور سلطان محمد بہادر عزیز صاحب) کے بچے کہاں پڑھتے ہیں؟
اگر وہ ایچی سن کالج یا کسی بھی ایلیٹ اسکول/ کالج میں چاہیں تو ان کے لیے کیا مشکل؟
لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ان کے بچے اور بھتیجے ان کے اپنے قائم کردہ “ایس بی اسکول” بمقام دربار حضرت سلطان باھُو میں پڑھتے ہیں، جہاں ان کے ہم جماعت وڈیروں، سرمایہ کاروں اور جاگیرداروں کے بچے نہیں بلکہ دربارِ عالیہ پہ قائم مدرسہ کے مفتیان کرام، دربار عالیہ کے خدمت گاروں اور درویشوں کے بچے ہیں۔
مزے کی بات کہ اس اسکول میں میٹرک ایف ایس سی وغیرہ کے ساتھ او لیول/اے لیول بھی پڑھایا جاتا ہے اور میرٹ پہ پورا اترنے والے تمام بچوں کے برٹش کونسل کے تمام اخراجات سلطان محمد علی صاحب ذاتی طور پہ ادا کرتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ، اس اسکول میں مباحثے، تحقیق، شاعری اور کھیلوں کی خصوصی تربیت کے ساتھ ساتھ بچوں کو علاقائی اور بین الاقوامی زبانیں سکھائی جاتی ہیں جن میں عربی، فارسی، ترکی اور فرنچ ۔کے ساتھ پشتو، سندھی بطور خاص ہیں۔
سلطان محمد علی صاحب علم دوستی، تحقیق اور سائنس کے فروغ پہ یقین رکھتے ہیں۔ ملک بھر میں “دار العلوم غوثیہ عزیزیہ انوار حق باھو” کے نام سے دینی مدارس، ملک بھر میں “ایس بی اسکول” کے نام سے بنیادی تعلیمی ادارے جن میں جدید ترین نصاب پڑھایا جاتا ہے اور اخلاقی تربیت پہ فوکس کیا جاتا ہے۔ ریسرچ اور پبلی کیشنز کے درجن بھر ادارے جن میں مسلم انسٹی ٹیوٹ، دی مسلم ڈیبیٹ اور ماہنامہ مرآة العارفین انٹرنیشنل جیسے ادارے ہیں۔ آپ سے وابستہ مریدین خاص کر زیر تربیت آنے والے نوجوانوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، بیوروکریسی، ججز، وکلا، صحافی، پروفیسرز، ڈاکٹرز، انجینئرز اور ہر شعبۂ زندگی میں آپ کے وابستگان ایمانداری، علم دوستی اور “پیٹریاٹ ازم” کے مظہر ہیں۔
ملک کے کونے کونے میں موجود ہزاروں نوجوان جاں نثار و سرفروش کارکنوں کے باوجود سلطان محمد علی صاحب اور اُن کی جماعت کبھی بھی تشدد اور وائیلنس کا حصہ نہیں بنے۔ اس کے برعکس کسی امام مسجد، عالم یا پیر کے پیچھے دو سو مقتدی، شاگرد یا مرید ہوں تو وہ آئے روز جلاؤ گھیراؤ کرتے پھرتے ہیں۔
سلطان محمد علی صاحب کی تربیت میں آنے والے نوجوان جہاں بھی ہوں اپنی عاجزی، سخاوت اور اخلاق کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ حیرانی ہوتی ہے کہ ان کی تربیت میں کون سا ایسا سحر ہے جو پتھر کو موم بنا دیتا ہے۔
ملک پاکستان کا سب سے کثیر الاشاعت ماہنامہ رسالہ سلطان محمد علی صاحب کا ادارہ شائع کرتا ہے۔ شاندار روایت یہ ہے کہ آج تک کبھی اپنے کسی سیاسی، مسلکی یا کسی بھی طرح کے مخالف کی کردار کشی نہیں کی اور نہ ہی کبھی فرقہ وارانہ مضامین چھاپے ہیں۔
سلطان محمد علی صاحب ہمیشہ اتحاد اور یکجہتی کا درس دیتے ہیں اور “اختلاف کے باوجود احترام” ان کی تعلیم ہے۔ “اپنا مسلک چھوڑو نہیں دوسرے کا مسلک چھیڑو نہیں” کا عملی نمونہ وہ خود بھی ہیں اور ان سے وابستہ لوگ بھی ہیں۔
ان کے آستانہ اور جماعت سے ہزاروں علمائے کرام وابستہ ہیں، یہ بات چیلنج سے کی جاسکتی ہے کہ سلطان محمد علی صاحب کی تربیت سے گزرنے والے کسی عالم کا کوئی فرقہ وارانہ کلپ یا تحریر کہیں نہیں ملے گی، کیونکہ وہ نفرت پہ نہیں محبت پہ یقین رکھتے ہیں۔
سلطان محمد علی صاحب کی زیر سرپرستی چلنے والی جماعت کے زیر اہتمام سال بھر پورے ملک میں بہت بڑے بڑے عظیم الشان اجتماعات ہوتے رہتے ہیں۔ کمال کی بات ہے کہ کبھی کوئی اجتماع بغیر سرکاری اجازت نہیں ہوا، کبھی کوئی اجتماع ناکام نہیں ہوا، کبھی کسی اجتماع میں نفرت انگیز بات نہیں کی گئی، کبھی کسی اجتماع میں مخالفین کو نشانہ نہیں بنایا گیا، کبھی کسی اجتماع کے ذریعے پُرتشدد تعلیم نہیں دی گئی، ان اجتماعات میں ہر مسلک کے لوگوں کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے اور آج تک کسی کی دل آزاری نہیں ہوئی، کبھی کوئی اجتماع بدنظمی کا شکار نہیں ہوا، کبھی کسی اجتماع میں تقریر کرنے والے مفتی/ مقرر یا کارکن پہ مقدمہ نہیں ہوا نہ ہی کوئی فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا، نہ ہی کبھی پولیس یا انتظامیہ سے تصادم ہوا (ہے نا کمال کی تربیت)۔۔۔
سلطان محمد علی صاحب کبھی کسی کو گالی نہیں دیتے، لغو گوئی نہیں کرتے، بے ہودہ تکلم نہیں کرتے، اخلاق سے گری بات نہیں کہتے، اپنے غصے کا اظہار بھی کریمی اور شفقت کے لہجے میں کرتے ہیں، ڈانٹنے کے بجائے شفقت اور شفقت اور بے پناہ شفقت سے اصلاح کرتے ہیں۔
شرافت اور صلح جوئی ان کا شعار، سخاوت ان کا ورثہ، لجپالی ان کا شیوہ اور امن پسندی ان کی شہرت ہے۔
مخلصانہ، دُور اندیشانہ، مدبرانہ اور بے باک مشورہ بھی سلطان محمد علی صاحب کی ایسی خوبی ہے، جو بیگانے کو اپنا اور اپنوں کو مزید اپنا کردیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں ذوقِ سلیم کے ساتھ طبیعت میں نفاست عطا کی ہے۔ ان کے ڈیرے پہ روزانہ ہزاروں مہمانوں کی آمدورفت کے باوجود صفائی اور سبزہ و ہریالی کا ایسا منظر ہے کہ بہشت کا گمان ہوتا ہے۔
وسعتِ مطالعہ، علمی دسترس اور منطق و دلیل پر قدرت کے باوجود سلطان محمد علی صاحب نے کبھی اپنی علمیت کا رُعب نہیں جھاڑا، بلکہ ہر ایک سے اُس کی ذہنی استعداد کے مطابق گفتگو کرتے ہیں اور لب و لہجہ ہمیشہ عاجزی و انکساری میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔
سلطان محمد علی صاحب کے پاس سیاست میں آنے کے تمام موقع موجود تھے، بھی اور ہیں بھی۔ ملک میں کئی حلقوں کو وہ اپنے یا اپنے بھائیوں کے حلقۂ انتخاب کے لیے چُن سکتے تھے، کئی پارٹیوں اور سیاست دانوں کے اصرار کے باوجود انہوں نے سیاست کے بجائے مشن کو ترجیح دی ہے۔
لاکھوں لوگ ان کے مرید ہیں، سوشل میڈیا پہ بہت بڑی فالوونگ رکھتے ہیں مگر سلطان محمد علی صاحب نے کبھی اپنے خلاف بات کرنے والوں کے پیچھے “گالی بریگیڈ” کو نہیں لگایا۔ یہ حلم اور حوصلہ ہی تو ہے جو انہیں عام سے خاص اور خاصوں میں خاص الخاص بناتا ہے۔
نظم و ضبط (ڈسپلن) سلطان محمد علی صاحب کا بنیادی اصولِ زندگی ہے۔ خود بھی اسی اصول پہ کاربند رہتے ہیں اور اپنے زیراہتمام تمام اداروں کو بھی اسی اصول پہ کاربند رکھتے ہیں۔ ذاتی زندگی سے قومی و ملی تربیت تک، ذکر کی محفلوں سے انٹرنیشنل کانفرنسوں کے انعقاد تک اور روحانی اجتماعات سے کھیل کے میدانوں تک ہر جگہ نظم و ضبط کا شاہکار دیکھنے کو ملتا ہے۔ کہیں بھگدڑ نہیں، عجلت نہیں، شور شرابا نہیں، بدانتظامی نہیں، بے سلیقگی نہیں، غیر شائستگی نہیں، بلکہ ہر چیز ایک ایسے “ڈسپلن” اور حُسنِ نظم و ضبط میں ڈھلی ہوتی ہے کہ خود بخود دل سے دعا نکلتی ہے، “یااللہ! اُمتِ اسلامی کو اجتماعی طور پہ ایسا ہی حُسنِ نظم و ضبط عطا فرما اور ہماری ایسی ہی شاندار صف بندی فرمادے۔”
سلطان محمد علی صاحب ہزاروں گھرانوں کی کفالت کرتے ہیں، ہزاروں بچوں کی تعلیم کا ذمہ اٹھائے ہوئے ہیں، سال بھر میں سیکڑوں بیٹیوں کو ان کے آنگن بھیجنے کا خرچ اٹھاتے ہیں، سال بھر میں سیکڑوں گھرانوں/برادریوں کے جھگڑے ختم کروا کر صلح کی تسبیح میں پروتے ہیں، مگر۔۔۔ ان خدمات کی کبھی کہیں کوئی تشہیر نہیں ہوتی نہ ان سے متعلق سوشل میڈیا پر پوسٹیں لگتی ہیں۔
مصنوعیت بھری اس دنیا میں سلطان محمد علی صاحب جیسا خالص، مخلص اور باکردار شخص کہیں مل جائے تو اسے روح کی گہرایئوں سے پسند کرنا “عقیدت مند” ہونے کا نہیں بلکہ “غیر حاسد اور غیر متعصب انسان” ہونے کا تقاضا ہے۔