شعیب محمد: یہ شخص تو شب خون میں مارا گیا ورنہ ۔ ۔ ۔
شعیب محمد وہ کھلاڑی تھا، جس نے پاکستان کرکٹ کی تاریخ کو نیا موڑ دیا۔ اسی کی وجہ سے حنیف برادران کا لفظ تبدیل ہو کر حنیف فیملی ہوا، کیوں کہ وہ اس کرکٹ فیملی کی دوسری نسل کا نمائندہ تھا۔
شعیب سے پہلے اس فیملی کے چار بھائی ٹیسٹ کرکٹ تک پہنچے، ان چار بھائیوں میں دو (وزیر محمد اور مشتاق محمد) مڈل آرڈر اور دو(حنیف محمد اور صادق محمد) اوپننگ بیٹسمین کی حیثیت سے جانے گئے۔ حنیف محمد کا بیٹا شعیب محمد اس خاندان کا تیسرا اوپنر قرار پایا۔
شعیب ایک ماہر بیٹسمین ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے بہترین فیلڈرزمیں شمار کیا جاتا تھا، ضرورت پڑنے پر اس کی آف بریک بالنگ بھی ٹیم کے کام آتی۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شعیب محمد ٹیم کے لئے ہر اعتبار سے ایک فائدہ مند کھلاڑی تھا، جس نے 45 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے 7 سنچریوں اور 13 نصف سنچریوں کی مدد سے 2705 رنز اسکور کئے۔ اس کی بیٹنگ اوسط 34۔44 رہی، جب کہ اس نے 22 کیچ بھی پکڑے۔
شعیب کی 7 سنچریوں میں دو ڈبل سنچریاں بھی شامل ہیں، جو اس کی مستقل مزاجی کا منہ بولتا ثبوت ہیں، لیکن اس عمدہ کارکردگی کے باوجود یہ کھلاڑی جو پاکستانی ٹیم کا مستقل کپتان ہو سکتا تھا، اپنے انٹرنیشنل کیریر کے 12 برسوں میں ٹیم کا مستقل حصہ بھی نہ بن سکا۔
وجہ؟ کیوں کہ اس کا تعلق حنیف فیملی سے تھا، جس کی روایت مستقل جدوجہد رہی ہے۔ یہ وہ لوگ تھے، جو اپنی کارکردگی پر ٹیم کا حصہ بنے تھے۔ اس کے علاوہ حنیف برادران کو ایک ایڈوانٹج یہ بھی حاصل رہا کہ 1953 سے 1978 تک ان کا کوئی نہ کوئی فرد ٹیم میں مضبوط پوزیشن پر آتا رہا، جس سے مخالفین کو بہرحال اپنے منصوبوں کی کامیابی میں مشکل کا سامنا ہوتا، لیکن شعیب کو یہ سہولت میسر نہ آئی۔
جس زمانے میں اس کا انٹرنیشنل کیریر شروع ہوا، حنیف برادران کی بساط لپٹ چکی تھی، تو اسے طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کے منفی اثرات اکثر اس کی کارکردگی پر دکھائی دیے، لیکن شعیب کی اہمیت کا احساس چوں کہ مخالفین کو بھی تھا، اس لئے اسے بار بار ٹیم میں شامل کرنا پڑتا۔ البتہ اچھی کارکردگی کے باوجود اسے بلاجواز ٹیم سے نکال دیا جاتا۔
ایسی بےحسی کا سامنا اسے اکثر کرنا پڑتا، لیکن یہ بے حسی اس وقت انتہا پر پہنچ گئی، جب 1987 کے دورہ بھارت کے پہلے ہی ٹیسٹ میں 143 رنز کی شاندار اننگز کھلینے کے باوجود اسے ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا، جبکہ رضوان الزمان کو ٹیم میں شامل رکھا گیا اور اسے خراب کارکردگی کے باوجود تمام میچ کھلائے گئے۔ البتہ شعیب نے اس وقت بھی ہمت نہیں ہاری، کیوں کہ اس نے بھی ارباب اختیار کی طرف سے بے حسی اختیار کرلی تھی۔
وہ محنت کرتا رہا اور بار بار سلیکٹرز اور کپتان کی بے حسی کو شکست دے کر ٹیم میں شامل ہوتا رہا۔
شعیب اپنی آل راونڈ صلاحیتوں کی وجہ سے ایک روزہ کرکٹ کا بھی مفید اور آموزدہ کھلاڑی تھا، جس کا ثبوت اس کے 63 میچوں میں 1 سنچری اور 8 ففٹی کی مدد سے بنائے گئے 919 رنز ہیں، جب کہ 20 وکٹیں اور 13 کیچز بھی اس کے اعدادوشمار کا حصہ ہیں، لیکن اس کے باوجود اسے ورلڈ کپ جیسے اہم ٹورنامنٹ سے دور رکھا گیا اور آخرکار 1995 میں اسے کرکٹ سے ہمیشہ کے لیے دور کردیا گیا۔
اس طرح حنیف فیملی کا یہ ستارہ کرکٹ کے افق سے غائب ہوگیا، لیکن اپنے دیگر فیملی ممبران کی طرح شعیب آج بحی شائقین کرکٹ کی یادوں میں روشن ہے۔