گم ہوتا کراچی: ہوسٹلری ڈی فرانس
زاہد حسین
کراچی ایئرپورٹ کے متروکہ ٹرمنل یعنی ٹرمنل ون سے اگر شاہراہ فیصل کی طرف آئیں تو اسٹار گیٹ پر دونوں سڑکوں کے سنگم پر ایک خوبصورت اور پروقار عمارت ہوا کرتی تھی، جو آج کھنڈر کی صورت خاموش کھڑی تیزی کے معدوم ہوتے خوبصورت کراچی کا نوحہ سنا رہی ہے۔ اس عمارت نے اپنے مالکان اور شہری انتظامیہ کی جانب سے توجہ نہ دیے جانے کے بعد کیکر کی جھاڑیوں کو گھونگھٹ بنا کر اپنا چہرہ چھپا رکھا ہے۔ شاہ فیصل ٹاؤن انتظامیہ کی جانب سے استقبالیہ سڑک پر گھاس سے سجی استقبالی سجاوٹ اس عمارت کو مزید ڈھانپ دیتی ہے۔
یہ عمارت ہوسٹلری ڈی فرانس ہے، جس سے نئی نسل ناواقف ہے۔ انیس سو نوے کی دہائی تک آباد رہنے والی اس عمارت نے کئی دہائیوں تک ہزاروں مسافروں کی میزبانی کی ہے۔ کراچی ایئرپورٹ سے قریب اسٹار گیٹ پر واقع ہونے کے باعث یہ عمارت غیرملکی مہمانوں سے بھری رہتی تھی۔ اگرچہ کراچی ایئرپورٹ ٹرمنل ون سے باہر نکلنے کے بعد بالکل قریب ہی ہوٹل مڈوے ہاؤس اور دی اِن، جسے بعد میں ایئرپورٹ ہوٹل کا نام دے دیا گیا تھا، واقع تھیں۔ لیکن ہوسٹلری ڈی فرانس شارع فیصل پر ہونے کی وجہ سے ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز تھی۔
ہوٹل کی کشادہ عمارت کے سامنے ایک وسیع باغیچہ تھا۔ اس باغیچے سے گزر کر استقبالیہ تھا، اور ساتھ ہی چوڑی راہداری نچلی منزل پر واقع ریستوران اور رہائشی کمروں تک جاتی تھی۔ اس ریستوران میں انواع و اقسام کے کھانے مہمانوں کو پیش کیے جاتے تھے، جن کے نرخ اس زمانے کے لحاظ سے خاصے مناسب تھے۔
نچلی منزل کے علاوہ دو بالائی منزلیں تھیں جن میں تمام کمرے مہمانوں کی رہائش کے لیے مختص تھے۔ ان کمروں میں تنہا رہنے والوں، جوڑوں اور اہلخانہ کے ساتھ آنے والے مسافروں کی سہولت کے لیے مختلف کمرے مکمل آسائش کے ساتھ دستیاب تھے۔ ان کمروں میں اس وقت کے لحاظ سے جدید فرنیچر اور دیگر آلات جیسے ٹیلی فون وغیرہ بھی موجود تھے۔ موسیقی کے شائقین کے لیے یہاں بوفے ہال میں موسیقی کا اہتمام بھی تھا، جیسا آج کل جدید ہوٹلوں میں بھی ہوتا ہے۔
اس عمارت کو یاد کرتے ہوئے معروف اداکار اور سماجی شخصیت راجو جمیل نے تین برس قبل کہا تھا کہ "اس ہوٹل میں کنواں نما ڈسکو ایک انتہائی منفرد چیز تھی۔ اس فلور پر میں نے بہت عرصہ رقص کیا ہے۔ وہ بھی کیا جادوئی زمانہ تھا۔ صرف ایک ماہ قبل میرا اس کھنڈر بنتی عمارت میں جانا ہوا تو میں نے اس ڈسکو کںویں کی طرف جانے کی کوشش کی، لیکن مجھے خبردار کیا گیا کہ اس طرف نہ جاؤں کیوں کہ وہاں موجود خوفناک کیکر کی جھاڑیوں میں سانپوں اور بچھوؤں نے اپنا مسکن بنا رکھا ہے۔ اس ہوتل کا ڈھانچا اب کسی قدیم ممی کی طرح ایک پراسرار مسکراہٹ چھپائے کھڑا ہے۔”
اس ہوتل کے مالکان اکبر زیدی، رونق رضا اور عارف رضا تھے۔ رونق رضا اور عارف رضا بھائی تھے۔ ان میں سے بڑے بھائی عارف رضا قاہرہ میں ہونے والے طیارہ حاثے میں بچ جانے والے واحد مسافر تھے۔ عارف رضا، رونق رضا اور ان کے والد سید ظفر علی پاکستان میں ہوتل انڈسٹری کے بانی تھے۔
مرحوم ظفر علی نے کراچی میں ہوٹل ڈی فرانس قائم کیا۔ 1970ء کی دہائی میں عارف رضا اسلام آباد منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے دو ہوٹلیں قائم کیں، جن کے نام ہوٹل شہرزاد اور ہوٹل شاہ باغ تھے۔ ہوٹل شہرزاد کی عمارت میں آج وزارت خارجہ کے دفاتر قائم ہیں۔ جبکہ اس وقت کے مشرقی پاکستان کے صدر مقام ڈھاکہ میں قائم ہوٹل شاد باغ کو سقوط ڈھاکہ کے بعد 1972میں پوسٹ گریجویٹ میڈیکل اسپتال و کالج میں تبدیل کردیا گیا۔