بھولے بسرے لوگ۔۔ شیر محمد بلوچ کو کس نے بُھلادیا؟
عاجز جمالی
یہ کوئی معمولی شخص نہیں بلکہ پاکستان کی نام ور شخصیت ہیں۔ کراچی کے قدیم علاقے ملیر سے تعلق رکھنے والا یہ شخص قومی اسمبلی میں تب بھی گونجتا تھا جب بہت کم پارلیمنٹرینز بولتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ 2002 میں قومی اسمبلی کے انتخابات سے قبل کنگز ہارٹی بنائی گئی تھی، انتخابات کے بعد بھی مطلوبہ تعداد کی حاصلات کے لیے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی کراچی میں بہت سرگرم تھے۔ ملیر کے اس بلوچ سے بھی رابطہ ہوا تھا، لیکن شیر محمد بلوچ کا ایک ہی جملہ تھا کہ “ووٹ بے نظیر کی امانت ہے“ شیر محمد بلوچ نے بعدازاں 2008 میں حکیم بلوچ کو شکست دی۔ شیر محمد بلوچ جیالا ممبر پارلیمنٹ رہا۔ حکیم بلوچ جو پیپلز پارٹی سے ناراض ہوکر مسلم لیگ ن میں چلے گئے تھے اور 2013 کے الیکشن میں پہلی بار پیپلز پارٹی کو حکیم بلوچ نے ہرا دیا تھا، لیکن پھر حکیم بلوچ مسلم لیگ سے ناراض ہوکر دوبارہ پیپلز پارٹی میں آگئے تھے۔
شیر محمد بلوچ ایک دو بار نہیں بلکہ متعدد بار قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ اسمبلی میں موجود رہے۔ انہوں نے روایتی مال کمانے والی سیاست سے گریز کرتے ہوئے علاقے کے لوگوں کے لیے کام کیا۔ بڑی بات یہ بھی کہ شیر محمد بلوچ 16 برس تک پیپلز پارٹی ملیر کے ضلعی صدر بھی رہے۔
ملیر کے کہنہ مشق صحافی سامی میمن بتاتے ہیں کہ شیر محمد بلوچ آج کل فالج کا شکار ہوگئے ہیں۔ اب وہ درست انداز میں بول بھی نہیں سکتے، وہ کوئی بہت امیر شخصیت نہیں، نہ کسمپرسی کی حالت ہے، لیکن شیر محمد بلوچ کو صرف ایک گلہ ہے کہ پارٹی نے انہیں بھلا دیا ہے۔ سامی میمن کے بقول شیر محمد بلوچ کی صرف ایک خواہش ہے کہ شہید بے نظیر بھٹو کا لخت جگر پیپلز پارٹی کا چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ان سے ملاقات کرنے آئے۔
کچھ عرصہ قبل پیپلز پارٹی کے رہنما نبیل گبول جب شیر محمد بلوچ سے ملاقات کرنے گئے تھے تو شیر بلوچ نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا۔ پیپلز پارٹی ہی نہیں پاکستان کی سیاست میں شیر محمد بلوچ جیسے کئی بھولے بسرے لوگ ہیں، جو کل ابھرتے سورج یا چمکتے چاند تھے، وہی جب آج ڈھلتے سورج کی مانند ہیں، ان کو کوئی نہیں پوچھتا۔