امام عالی مقامؓ کے خطبات، حصہ دوم
محرم الحرام کے حوالے سے مفتی منیب الرحمان کے قلم سے نکلی خصوصی تحریر
(حصہ دوم)
امام ابن جریر طبری (متوفّٰی 310 ہجری) لکھتے ہیں: (عصر کی) نماز کے بعد سیدنا امام حسینؓ نے لوگوں کی طرف رخ کرکے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: ”لوگو! اگر تم اللہ کا خوف کرو اور حق داروں کے حق کو پہچانو‘ تو تمہارا یہ عمل اللہ کی رضا اور خوشنودی کا باعث ہوگا، ہم اہلبیت رسولؐ ہیں، یہ لوگ جو تم پر حکومت کرنے کے دعوے دار ہیں، اس کا انہیں حق نہیں ہے، یہ تمہارے ساتھ ظلم اور تعدّی سے پیش آتے ہیں، ان کی نسبت ہم حکومت کے زیادہ حق دار ہیں، اگر تم ہمیں پسند نہیں کرتے اور ہمارے حق سے واقف نہیں ہو اور تم نے اپنے خطوط اور قاصدوں کی زبانی جو پیغامات مجھے بھیجے ہیں، اب اگر تمہاری رائے اُن کی بابت تبدیل ہوگئی ہے تو میں واپس چلا جاتا ہوں۔ یہ سن کرحُر بن یزید نے کہا: "خدا کی قسم! جن خطوط کا آپ ذکر کر رہے ہیں ان کا مجھے کوئی علم نہیں ہے، تو حضرت حسینؓ نے عقبہ بن سمعان سے کہا: "وہ دونوں تھیلے لے کر آؤ، جن میں ان لوگوں کے خطوط ہیں، عقبہ وہ دونوں تھیلے نکال لا ئے، دونوں میں خطوط بھرے ہوئے تھے، سب کے سامنے ان خطوط کو بکھیر دیا۔ حر نے کہا: "جن لوگوں نے آپ کو خطوط لکھے تھے، ہم ان میں سے نہیں ہیں، ہم کو حکم ملا ہے کہ ہم جہاں آپ کو پائیں، ابن زیاد کے پاس لے چلیں اور اس کے بغیر آپ کو نہ چھوڑیں۔ سیدنا حسینؓ نے اس سے فرمایا: اس مقصد کو حاصل کرنے کی نسبت تمہارے لیے مر جانا زیادہ آسان ہے، پھر آپؓ نے اپنے اصحاب کو سوار ہونے کا حکم دیا، سب سوار ہو گئے اور انتظار کرنے لگے حتیٰ کہ ان کی مستورات بھی سوار ہو گئیں۔ آپؓ نے اپنے اصحاب سے کہا: ہم سب کو واپس لے چلو، پس جب وہ واپس جانے لگے تو حر کے لشکر والے مقابل آ گئے، اس پر سیدنا امام حسینؓ نے کہا: تو کیا چاہتا ہے؟ حر نے کہا: میں آپ کو عبیداللہ بن زیاد کے پاس لے جانا چاہتا ہوں۔ حضرت امام حسینؓ نے کہا: اللہ کی قسم ایسا نہیں ہو سکتا، میں تیری پیروی نہیں کروں گا۔ (تاریخ الطبری، ج 5، ص 402)
عقبہ بن ابی العیزار بیان کرتے ہیں: حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب اور حر بن یزید کے ساتھیوں کو مقام بیضہ میں خطبہ دیا، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ”لوگو! رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص ایسے بادشاہ کو دیکھے جو ظالم ہو اور اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھتا ہو، اللہ کے عہد کو توڑتا ہو، رسولﷺ کی سنتوں کی خلاف ورزی کرتا ہو، بندگانِ خدا کے ساتھ ظلم و سرکشی کے ساتھ پیش آتا ہو اور پھر عملی یا زبانی طور یہ شخص ایسے حاکم پر اعتراض نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی اس حاکم کے اعمال میں شریک فرمائے گا۔ آگاہ ہو جاؤ! ان حاکموں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی ہے اور خدا کی اطاعت کو ترک کر دیا ہے، فساد کو ظاہر اور حدود شرع کو معطل کر دیا ہے، مال غنیمت کو غصب، حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر رکھا ہے، ان پر اعتراض کرنے کا سب سے زیادہ مجھے حق ہے، تمہارے خطوط میرے پاس آئے، تمہارے قاصد میرے پاس تمہاری طرف سے بیعت کرنے کے لیے آئے کہ تم میرا ساتھ نہ چھوڑو گے، مجھے دشمنوں کے حوالے نہیں کروگے، اگر تم اپنی بیعت کو پورا کرتے ہو تو بہرہ مند رہو گے، میں حسین ہوں، علی و فاطمہ بنت رسول رضی اللہ عنہما کا فرزند ہوں، میری جان تمہاری جانوں کے ساتھ اور میرے اہل و عیال تمہارے اہل و عیال کے ساتھ ہیں، میں تمہارا پیشوا ہوں، اگر تم نے ایسا نہ کیا اور عہد و پیمان کو توڑا اور میری بیعت کو اپنی گردن سے اتار پھینکا، میری جان کی قسم! یہ بات تمہارے لیے کوئی نئی بات نہیں، یہی سلوک تم نے میرے باپ، میرے بھائی اور میرے چچا زاد مسلمؓ بن عقیل کے ساتھ کیا ہے۔ میں نے تم پر بھروسا کرکے دھوکا کھایا اور جس نے بدعہدی کی، اس کا وبال اُسی پر آئے گا اور عنقریب اللہ تعالیٰ مجھے تم سے بے نیاز کردے گا۔
مقام ذی حَسم پر آپؓ نے خطبہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا: ”تم لوگ دیکھ رہے ہو کیا حال ہو رہا ہے، دنیا بدل چکی ہے، پہچانی نہیں جاتی، نیکیاں روگرداں ہو گئیں، اب صرف برتن کا دھووَن باقی رہ گئی ہے اور بدترین اور ناگوار زندگی، کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ حق پر عمل نہیں ہوتا، باطل سے پرہیز نہیں کیا جاتا، مومن کو اب چاہیے کہ حق پر رہ کر خدا سے ملاقات کرے، میں دیکھتا ہوں کہ مرجانا شہادت ہے اور ظالموں کے ساتھ زندگی بسر کرنا ناگوار امر ہے۔ (تاریخ الطبری:ج: 5، ص: 403)‘‘
خطبۂ یومِ عاشورامام ابن کثیر (متوفّٰی 774ہجری) لکھتے ہیں: ”پھر سیدنا امام حسینؓ اپنے گھوڑے پر سوار ہو گئے، قرآنِ کریم کو اٹھایا اور اپنے سامنے رکھا، پھر قوم کی طرف رُخ کیا در آں حالیکہ آپؓ ہاتھ اٹھائے ہوئے یہ دعا مانگ رہے تھے: ”اے اللہ! ہر مصیبت میں تیری ہی ذات پر میرا بھروسا ہے اور ہر مشکل میں تو ہی میری امید ہے‘‘، پھر آپ کے شہزادے علیؓ بن حسین گھوڑے پر سوار ہوئے، وہ کمزور اور بیمار تھے، حضرت حسینؓ نے بلند آواز میں فرمایا: ” لوگو! میں تمہیں ایک نصیحت کرتا ہوں، توجہ سے سنو! سب لوگ خاموش ہوگئے، امامِ عالی مقامؓ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ”لوگو! اگر تم مجھ سے نصیحت قبول کرتے ہو اور میرے ساتھ انصاف کرتے ہو تو یہ تمہارے لیے سعادت کی بات ہو گی اور تم پر میرا کوئی زور نہیں ہے اور اگر تم میری نصیحت قبول نہیں کرتے، توتم اپنے (خود ساختہ) معبودوں کے ساتھ مل کر سازش کو پختہ کر لو پھر تمہیں اپنے فیصلے میں کوئی تذبذب باقی نہ رہے، پھر تم جو کچھ میرے خلاف کر سکتے ہو، وہ کر گزرو اور مجھے مہلت نہ دو (یونس:71)‘‘ ”بے شک میرا مددگار اللہ ہے، جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک لوگوں کی مدد کرتا ہے (الاعراف: 196)‘‘۔ جب آپؓ کی بہنوں اور بیٹیوں نے یہ سنا تو وہ بلند آواز سے رونے لگیں، اس پر آپؓ نے کہا: اللہ تعالیٰ ابن عباسؓ پر رحم فرمائے، انہوں نے مجھے مشورہ دیاتھا کہ اپنے ساتھ خواتین کو لے کر نہ جائیں اور معاملات درست ہونے تک ان کو مکہ میں رہنے دیں، پھر آپؓ نے اپنے بھائی عباسؓ کو بھیجا تو انہوں نے ان خواتین کو خاموش کرا دیا، پھر آپؓ نے لوگوں کو اپنی (ذاتی) فضیلت، نسب کی عظمت، مرتبے کی بلندی اور بزرگی بیان فرمائی، آپؓ نے فرمایا: اپنے ضمیر کو ٹٹولو اور اپنا محاسبہ کرو، کیا تمہارے لیے مجھ جیسے شخص کا قتل جائز ہے اور میں تمہارے نبیﷺ کی بیٹی کا بیٹا ہوں، روئے زمین پر میرے سوا کسی نبی کی بیٹی کا کوئی بیٹا نہیں، علی رضی اللہ عنہ میرے والد ہیں، جعفر ذوالجناحین رضی اللہ عنہ میرے چچا ہیں، حمزہ سید الشہداء رضی اللہ عنہ میرے والد کے چچا ہیں، میرے اور میرے بھائی کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: ”یہ دونوں جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں، اگر تم میری بات کی تصدیق کرتے ہو تو میں سچ کہتا ہوں، اللہ کی قسم! جب سے میں نے جانا ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ پر ناراض ہوتا ہے، میں نے جھوٹ نہیں بولا، اگر ایسا نہیں ہے تو رسول اللہﷺکے اصحاب سے اس بارے میں پوچھ لو، حضرات جابر بن عبداللہ، ابوسعید خدری، سہل بن سعد، زید بن ارقم اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم تمہیں اس بارے میں بتا دیں گے، تم پر افسوس ہے، کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے، کیا یہ میرا خون بہانے سے تمہارے لیے رکاوٹ نہیں ہے، تو اس وقت شَمِرُ بنُ ذی الجَوشَن نے کہا: وہ ایک کنارے پر کھڑا ہوکر اللہ کی عبادت کرتا ہے، مگر میں جانتا ہوں کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ تو حبیب بن مطہر نے اس کو جواب دیا: خدا کی قسم اے شمر! تم ستر کناروں پر کھڑے ہوکر اللہ کی عبادت کرتے ہو، اللہ کی قسم! جو وہ کہہ رہے ہیں ہم جانتے ہیں اور بے شک تیرے دل پر مہر لگ چکی ہے، پھر امام عالی مقامؓ نے فرمایا: ”لوگو! مجھے چھوڑ دو تاکہ میں ایسی جگہ لوٹ جائوں جہاں میرے لیے امان ہو اورکوئی خوف و خطر نہ ہو، انہوں نے کہا: آپ اپنے چچازاد کی بیعت کیوں نہیں کرتے، تو آپؓ نے فرمایا: معاذاللہ! میں ہر متکبر سے جو حساب کے دن پر ایمان نہیں رکھتا، اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں، (غافر:27)‘‘۔ پھرآپؓ نے اپنی سواری کو بٹھایا اور عقبہ بن سمعان کو حکم دیا تو اس نے سواری کو باندھ دیا، پھر فرمایا: مجھے بتائو کیا میں نے تم میں سے کسی کو قتل کیا ہے، جس کا تم مجھ سے مطالبہ کرتے ہو یا میں نے تمہارا مال کھایا ہے یا کسی زخم کاقصاص مانگتے ہو، اس پر وہ لوگ خاموش ہو گئے۔ راوی کہتا ہے: پھر آپؓ نے بلند آواز سے پکارا: اے شبیث بن رَبعی، اے حجار بن اَبجُر، اے قیس بن الاَشعث، اے زید بن الحارث، کیا تم نے مجھے نہیں لکھا کہ پھل پک چکے ہیں اور درخت سبز ہو چکے ہیں، آپ ہمارے پا س تشریف لائیں، آپ ایک تیار فوج کے پاس تشریف لائیں گے۔ انہوں نے کہا: ہم نے ایسا نہیں کہا، آپؓ نے فرمایا: خداکی قسم! تم نے ایسا ہی کہا ہے، پھر فرمایا: لوگو! جب تم مجھے ناپسند کرتے ہو تو مجھے چھوڑ دو تاکہ تمہارے پاس سے چلا جائوں، تو قیس بن الاشعث نے کہا: تم اپنے چچا زاد کی بیعت کیوں نہیں کرتے وہ تمہیں تکلیف نہیں دیں گے اور آپ ان کو اچھا پائیں گے، سیدنا حسینؓ نے اس سے فرمایا: تم اپنے بھائی کے بھائی ہو، کیا تم چاہتے ہو کہ بنوہاشم تم سے مسلمؓ بن عقیل کے خون سے زیادہ کا مطالبہ کریں؟ نہیں ِاللہ کی قسم! میں ذلیلوں کی طرح اس کی بیعت نہیں کروں گا اور نہ غلاموں کی طرح اس کو تسلیم کروں گا، (اَلْبِدَایَۃ وَالنِّہَایَۃ:ج:8، ص:180)‘‘۔ستم یہ ہے کہ محبت ِ حسینؓ کے دعوے دار تو بہت ہیں مگر اُن کی اقدار کو زندہ کرنے والے آج بھی کم یاب بلکہ نایاب ہیں، علامہ اقبال نے سچ کہا تھا: گرچہ تابدار ہے، اب بھی گیسوئے دجلہ و فراتقافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں۔
بشکریہ روزنامہ دنیا