پلک سے روح تک بھیگا ہوا ہوں
وہ موسم جو پھول کھلنے کا ہوتا ہے، دل مرجھانے کا ہے۔ دل گرفتگی کا موسم ہے۔ جدائی کا موسم۔ ٹی ایس ایلیٹ کی مشہور زمانہ لائن یاد آتی ہے۔ اپریل ظالم ترین مہینہ ہے (April is the cruelest month)۔ بہت اعلیٰ شاعر نجیب احمد بھی اس جہان کی طرف چلے گئے جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا۔ ابھی چند دن پہلے شفیق سلیمی بھی یہ جہان چھوڑ گئے تھے اور ان کا غم منانے والے ابھی سنبھلے بھی نہ تھے کہ پتا چلا ایک تازہ گھاؤ ان کا منتظر ہے۔ فراز ان سے کافی پہلے یہ کہہ کر جا چکے تھے: کوچ کر جاتا ہے اک دوست ہر آوازے پر گوشِ شنوا ہے تو سن! ایک صدا اور لگی اتنی تیزی سے دوست اور عزیز اٹھ کر جارہے ہیں کہ اس شتابی پر حیرت ہوتی ہے۔ جانے والوں کی یہ قطار ایسی تیز رفتار پہلے تو کبھی نہ تھی۔ وقت وہ ہے کہ چند آنسو بھی کسی ایک کے نام نہیں ہو سکتے‘ انہیں بھی بہت سے ناموں پر تقسیم کرنا پڑتا ہے۔
ارادہ کسی اور موضوع پر لکھنے کا تھا لیکن نجیب احمد کی رخصت نے اس ارادے کو رخصت کردیا۔ دل زندہ اور چشم بینا ہے تو رب کو ارادوں کے ٹوٹنے سے بھی پہچان لیجیے اور پیاروں کے رخصت ہوجانے سے بھی۔ رہے نام اللہ کا۔ جب ہم تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل تھے، اور اس بات کو چالیس سال سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر گیا، تو شاعروں کی جو نوجوان نسل گنی جاتی تھی ان میں جناب نجیب احمد اور شفیق سلیمی بھی ممتاز اور قدآور ناموں میں سے تھے۔ اس وقت سینئر ترین نسل میں فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی جیسے نام موجود تھے۔ نجیب احمد کا تعلق حلقۂ ندیم سے تھا اوران کی اور خالد احمد کی جوڑی معروف تھی۔ اس زمانے میں مجلس ترقیٔ ادب اور فنون کا دفتر آباد رہتا تھا‘ اور اسے آباد رکھنے والوں میں نجیب احمد بھی
تھے۔ مجلس آرائی اور کم گوئی دو متضاد باتیں ہیں‘ لیکن نجیب احمد ان دونوں کے حامل تھے۔ یہ دوطرفہ مزاج میں نے کم کم دیکھا ہے۔ مجھے ان سے پہلی ملاقات تو یاد نہیں لیکن ان کی وہ منفرد نعت یاد ہے جو ستر کی دہائی میں بہت مشہور ہوئی تھی۔ یہ نعت اپنی سادگی، بے ساختگی اور مختلف کیفیت کی وجہ سے بہت منفرد تھی: آپ کا عہد گر ملا ہوتا میں بھی ہم عصر کعب کا ہوتا آپ جن راستوں سے گزرے تھے ان پہ میرا بدن بچھا ہوتا کاش میں بھی لحد کی مٹی میں آپ کے ہاتھ سے ملا ہوتا اس نعت کو سامنے رکھ کر بہت سی نعتیں کہی گئیں اور ان میں سے ایک مشہور بھی ہوئی‘ لیکن اولیت کا شرف نجیب صاحب کو حاصل ہے۔ ویسے بھی وہ بہت مضبوط شاعر تھے اور ان کی نقل آسان نہیں تھی۔ ان کی ایک اور نعت کے دو شعربھی حافظے میں محفوظ ہیں: تو نے وہ دیا جلا دیا ہے ذرات کو جگمگا دیا ہے اے عفو کے کوہسار تو نے دریاؤں کو راستہ دیا ہے پہلی ملاقات یاد نہیں لیکن شاید کسی مشاعرے میں ہوئی تھی‘ جلد ہی مشاعروں اور محفلوں میں ان سے مزید ملاقاتیں شروع ہوگئیں اور بہت کلماتِ تحسین ان کی طرف سے میرے حصے میں آئے۔ وہ میرے ان سینئرز میں تھے جن کے شعر اور مصرعہ سازی سے سیکھا جاتا تھا اور بعد کی نسل کے شعرا انہیں دل سے قابلِ تقلید جانتے تھے۔ ان یادوں کی البم دل میں محفوظ ہے اور اس مرقع کی آخری جھلملاتی تصویروں میں سے ایک 28 اگست 2019 کی ہے جب وہ اپنا تازہ شعری مجموعہ گریزاں مجھے دینے کے لیے میرے دفتر تشریف لائے تھے‘ اور ستائشی الفاظ کے ساتھ مجھے کتاب عنایت کی تھی۔
کہتے ہیں کہ پیدائش سے بھی پہلے مقدر لکھ دیا جاتا ہے۔ 1946 میں امرتسر میں پیدا ہونے والے محمد طفیل کی قسمت میں بالآخر نجیب احمد کے نام سے معروف ہونا تھا۔ عبارتیں، زر ملال، ازل اور گریزاں کے نام سے شعری مجموعے ان کی شناخت بننا مقدر تھے۔ ایک بھرپور ادبی زندگی گزارنا اور حکومت پاکستان کی طرف سے 2014 میں ملنے والا تمغۂ حسن کارکردگی ان کے گلے میں ڈالا جانا اور جمعہ 9 اپریل 2021 کو لگ بھگ 75 سال کی عمر میں سپرد خاک ہونا لکھ دیا گیا تھا۔ نجیب صاحب بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے اور انہیں غزل کی روایت سے جڑے رہ کر اسے تازگی بخشنے کا فن آتا تھا‘ لیکن ان کی نظمیں بھی بہت عمدہ ہیں۔ ازل کے نام سے زمین پر انسان کے ورود، پیمبروں کے نزول اور بالآخر نبی آخرالزماںﷺ کی سیرت پر ان کی طویل نظم کتابی شکل میں ایک شاہکار ہے۔ سہ مصرعی بندوں (cantos) پر مشتمل یہ نظم نجیب صاحب کی قدرت کلام اور قوت کلام دونوں کی دلیل ہے: جمالِ برگ فزوں تر ثمر کے نور سے ہے نمو کے رنگ سے خوشبو جدا نہیں کرتے بھری ہو گود تو عورت حسین لگتی ہے …… ابھی تو زینۂ گل سے مہک نہ اتری تھی شجر کی شاخ تھی رنگوں کی روشنی سے تہی چراغ شام سے پہلے جلا نہیں کرتے امریکہ بہادر نے نیو ورلڈ آرڈر ترتیب دیا تو ہنستی بستی زمین کے بہت سے ٹکڑوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ پاکستان براہ راست نائن الیون کے معاملے میں ملوث نہیں تھا‘ لیکن اسے بھی آگ میں جھونک دیا گیا۔ اصحابِ اقتدار نے اپنی اغراض کیلئے ملکی پالیسی سے الٹی قلابازی کھائی اور نتائج و عواقب کا خیال کیے بغیر آگ کے دریا میں قدم رکھ دیا۔ یہ ملکی تاریخ کا پُرآشوب ترین زمانہ تھا۔ میرے خیال میں اس دور میں نجیب صاحب سے بہتر شعر کسی نے نہیں کہا۔ یہ ایسا شاعر ہی کہہ سکتا تھا جواس دکھ سے بھی گزررہا ہو اور اسلاف کی روایات سے بھی واقف ہو۔ عجب اک معجزہ اس دور میں دیکھا کہ پہلو سے یدِ بیضا نکلنا تھا مگر کاسہ نکل آیا نجیب صاحب کی شاعری آورد کی نہیں آمد کی شاعری تھی، وہ اس معاملے میں اپنے ہم عصروں سے الگ تھے۔ وہ شعر اور مصرعے پر بہت محنت کرتے تھے لیکن شعر کی بے ساختگی پر کوئی خراش نہیں آنے دیتے تھے۔ کھلنڈرا سا کوئی بچہ ہے دریا سمندر تک اچھلتا جا رہا ہے چھاؤں کیا کیا نہ میسر ہے مگر ہم پھر بھی ایک دیوار کے سائے کی طرف دیکھتے ہیں ہم ایسے بھی گئے گزرے نہیں ہیں ہمارے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے وہ چاندنی وہ سمندر، وہ رخ بدلتی ہوا وہ شور تھا کہ تلاطم سے ڈر گئے ہم بھی عہد و پیماں تو بھلانے کے لیے ہوتے ہیں اور ہم ہیں کہ تجھے یاد دلا بیٹھے ہیں پلک سے روح تک بھیگا ہوا ہوں ترے خط کھول کر بیٹھا ہوا ہوں گلا رندھ جائے تو آواز کہاں نکلتی ہے۔ یہ سب لکھتے لکھتے میرے قلم کا گلا رندھ گیا ہے۔ میں کیا بات کروں اور کیسے۔ اجازت لیتا ہوں اورآپ کو ان کے شعر کے حوالے کرتا ہوں جنہیں آج ہی مٹی کے حوالے کیا ہے۔ یہ کہیں تیری محبت کا تسلسل تو نہیں آخری عمر میں لَو رب سے لگا بیٹھے ہیں