روزے کی فضیلت اور فلسفہ

حافظ احمد

روزے کے احادیث مبارکہ میں بے شمار فضائل وارد ہوئے ہیں۔ روزہ داروں کے لیے جنت کا "بابِ ریان” خاص کیا گیا ہے، انہیں فرشتوں کی دعاؤں سے حصہ دیا گیا ہے نیز اللہ تعالی نے ان کے لیے اپنی طرف سے خصوصی جزا رکھی ہے اور خود سے ملاقات کی بشارت بھی دی ہے۔

قرآن پاک کی رو سے روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض تھے اور اس امت پر بھی ہجرت کے دوسرے سال فرض قرار دیے گئے۔ روزوں کی فرضیت سے متعلق علما نے ایک نکتہ یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ نبی کریم ﷺ چونکہ غار حرا میں روزے رکھا کرتے تھے لہذا اللہ پاک نے اپنے محبوب علیہ الصلوة و السلام کی اس سنت کو یاد اور زندہ رکھنے کے لیے اس امت پر روزوں کو فرض قرار دیا۔

قرآن پاک نے تقوی کے حصول کو روزے کا بنیادی مقصد قرار دیا ہے یعنی روزے کے ذریعے اپنے نفس کی تربیت کی جائے، اپنی خواہشات کو مارا جائے اور اپنی شہوت کو ختم کیا جائے تا کہ گناہوں سے بچا جا سکے۔
اس کو آپ یوں سمجھیں کہ بندہ روزے کی حالت میں ہوتا ہے اس کے سامنے حلال چیزیں موجود ہوتی ہیں لیکن وہ محض اپنے رب کے حکم اور اس کی اطاعت کی وجہ سے ان حلال چیزوں کو ہاتھ لگانے کا تصور بھی نہیں کرتا لہذا روزے کے ذریعے اگر اطاعت خداوندی کا یہ تصور مضبوط ہوجائے تو بندہ جس طرح روزے میں محض رب تعالی کے حکم کی بنیاد پر حلال چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے ویسے ہی روزے کے باہر بھی حرام کے ارتکاب سے بچتا رہے گا۔
اور اس ماہ میں چونکہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اپنی ایک عظیم نعمت یعنی اپنے معجز کلام قرآن پاک سے نوازا تو ضروری تھا کہ بندے اپنے رب تعالی کا شکر بجا لانے کے لیے کوئی خاص عمل کرتے لہذا اس سلسلے میں روزوں کی عبادت عطا کی گئی کہ اس عظیم عبادت کے ذریعے تم اپنے رب کی اس عظیم نعمت کا شکر بجا لانے کی کوشش کرو نیز قرآن پاک جو کہ انوار و تجلیاتِ الٰہیہ کا منبع ہے اس سے زیادہ سے زیادہ اکتساب فیض کرنے کے لیے ضروری تھا کہ باطن پاک و صاف ہو لہذا روزہ جیسی عبادت عطا کر دی گئی جو کہ باطن کی صفائی کرتی، نفس کو نکھارتی اور کشف کی صلاحیت کو بیدار کرتی ہے۔

روزے کی حقیقت اور فلسفے کو اجاگر کرتے ہوئے حضور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
روزے کی حقیقت "رُکنا” ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں جیسے معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو بد نگاہی سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زَبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتیں کرنے اور جسم کو حکم الٰہی کی مخالفت سے روکے رکھنا روزہ ہے۔ جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گاتب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔ (کَشْفُ الْمَحْجُوب ص۳۵۴، ۳۵۳)

اور ایک حدیث پاک بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ:
اگر بندہ روزے رکھ کر بھی برے اعمال سے اجتناب نہ کرے تو اللہ تعالی کو اس کے روزے کی کوئی حاجت نہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔