پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی
یوم شہدائے پولیس پر خصوصی تحریر
مجھے اب سال تو یاد نہیں لیکن یہ کوئ سنہ 1980 کی دہائی کے وسط کی بات ہے کہ عید کے دوسرے دن ہم دس بارہ لڑکوں نے کراچی گھومنے کا پروگرام بنایا۔ جوہی سے دادو، پھر دادو سے حیدر آباد اور آخر میں آوارہ گردیاں کرتے ہم کراچی تک پہنچے۔
ابھی میٹروپول ہوٹل زندہ تھا۔ خستہ حال ہی سہی لیکن سستے نرخ پر تین چار کمرے لے کر ہم نے وہاں رات گزاری۔ دوسرے دن ہم لوگ صبح صبح ساحل سمندر پر پہنچ گئے۔ دیہات سے کراچی گھومنے آنے والوں کے لئے سمندر ہمیشہ پرکشش جگہ رہی، اب بھی ہے۔ ابھی سمندر کے پانی میں ڈبکیاں ہی مار رہے تھے کہ ایک پولیس موبائل پہنچ گئی۔ پولیس اہلکاروں نے لاٹھیاں برساتے ہوئے ساحل پر نہانے والوں کو بھگانا شروع کردیا۔ فطری بات ہے ہم سب ہی جلدی جلدی پانی سے باہر نکل کر کر ساحل پر دیگر ساتھیوں کا انتظار کرنے لگے۔ اچانک میری پیٹھ پر لاٹھیاں برسنا شروع ہوگئیں اور دو تین پولیس والوں نے پکڑ کر مجھے موبائل وین میں بٹھا دیا۔ ایک ایک کرکے ہم تمام جوہی والوں کو موبائل وین میں بھیڑ بکریوں کی طرح پھینکتے گئے۔ شاید ان کو محسوس ہوا ہوگا کہ یہ دیہاتی لڑکے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں پولیس موبائل تھانے میں داخل ہوتی ہے۔ ہم سب کو لاک اپ میں بند کردیا جاتا ہے۔ ( کلفٹن تھانہ آج کل بڑی خوبصورت عمارت میں ہے، اس وقت یہ دو تین کمروں پر مشتمل چھوٹا سا تھانہ تھا )۔ ہم سب دیہاتی نہ کوئی جان نہ پہچان۔ آپس میں ہی ایک دوسرے سے لاک اپ کے اندر لڑ رہے تھے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ ساحل پر کیوں لے کر آئے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ گاؤں میں والدین پتہ چل گیا تو قیامت برپا ہوجائے گی۔ کسی نے کہا کہ پیسے دے کر جان چھڑاتے ہیں۔ کسی نے کیا تو کسی نے کیا کہا۔ بالآ آخر ایک پولیس والا آیا مشورہ دینے لگا کہ پیسے دے کر جان چھڑالو، بلا جواز ایف آئی آر درج ہوگئی تو پھنس جاؤگے۔ گویا پولیس اہلکار ڈیل کرنے آیا تھا۔
جوہی کا مشہور دکاندار منظور سرہیو نا صرف عمر میں سب سے بڑا تھا بلکہ قد کاٹھ میں بھی بڑا اور رعب تاب میں امیر لگ رہا تھا۔ وہی ہمارا اس تفریحی منصوبے کا گروپ لیڈر بھی تھا۔ سب نے مل کر کہا کہ منظور بھائی آپ پولیس والوں سے بات کرو۔ دو چار سو روپے دے کر رہائی نصیب ہوتی ہے تو کوئی عار نہیں۔ تھوڑی دیر بعد وہی پولیس والا آیا۔ لازمی ہے کہ اسے پیٹ میں مروڑ آ رہے تھے، ہم بے کس دیہی پرندے جو شہری پولیس کے قفس میں پھنس چکے تھے۔ کہنے لگا، “لڑکو، آپ لوگوں نے کیا سوچا ہے؟ کرودوں ایف آئی آر؟“ ہم نے کہا کہ منظور بھائی کو باہر لے جائیں ایس ایچ او سے ملوائیں، وہی ہمارے بڑے ہیں۔ پولیس اہلکار نے لاک اپ کا دروازہ کھولا اور منظور سرہیو کو باہر لے کر گیا اور ڈیل کامیاب ہوگئی۔ فی لڑکا دو دو سو روپے۔ شاید دو ہزار روپے کی رقم بنی تھی جو دے کر ہم تھانے سے آزاد ہوئے۔ جو عیدی ملی تھی وہ پولیس کھا گئی تھی۔ کراچی گھومنے کا پورا پروگرام فلاپ ہوگیا تھا۔ بیس نمبر بس میں سوار ہوکر صدر پہنچے۔ اور واپس گاؤں روانہ ہوگئے۔ میں جب بھی کلفٹن تھانے سے گزرتا ہوں تو آج پینتیس چھتیس برس بعد بھی اس واقعے کی رِیل دماغ میں چلنا شروع ہوجاتی ہے۔
میں دادو تھانہ کے اس ایس ایچ او کو بھی کبھی بھُلا نہ سکا جس نے مجھے زوردار تھپڑ صرف اس لئے رسید کیا تھا کہ جب میں اور میرا دوست دلشاد بھٹو تھانے میں کسی کے ساتھ ہونے والی نا انصافی پر متاثرہ شخص کو دیکھنے گئے تھے۔ بعد میں ڈپٹی کمشنر سبحان میمن سے شکایت کرنے پر ایس ایس پی سلیم اختر صدیقی نے بھلے مذکورہ ایس ایچ او کو معطل ہی کردیا ہو
نومبر 2007 کے اس پولیس اہلکار کو بھی میں نہیں بھلا سکتا جس نے ڈنڈے برسانے والے دیگر پولیس والوں کو روک کر مجھے سڑک سے اٹھایا۔ یہ تب کی بات ہے جب سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے دوسری بار ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے ٹی وی چینلز پر پابندی عائد کی اور ان پابندیوں کے خلاف پی ایف یو جے کی اپیل پر کراچی پریس کلب سے بڑا مظاہرہ لے کر ہم لوگ گورنر ہاؤس کی جانب بڑھ رہے تھے کہ سدکو سینٹر کے سامنے اچانک لاٹھیوں کی برسات شروع ہوگئی اور اشک آور زہریلی گیس کے گولے برسنا بھی شروع ہوگئے۔
پولیس والوں سے لڑتے ہوئے ہم چار پانچ صحافی زخمی ہوئے تھے۔ جب جسم پر لاٹھیوں کی موسلادھار بارش شروع ہوتی تب پتہ ہی نہیں چلتا کہ قطرہ قطرہ سمندر کس طرح بنتا ہے لیکن میرے ہوش اڑچکے تھے۔ شاید اس لئے ہی میں سڑک پر گر پڑا میں گرتے دیکھا کہ جو پولیس والا لاٹھیاں برسا رہا تھا اس کو دوسرے پولیس والے نے نا صرف روکا بلکہ مجھے سہارہ دے کر اٹھانے کی کوشش کی۔ اس کا نام کیا تھا۔ کون تھا۔ کہاں سے تعلق رکھتا تھا، میں نہیں جانتا۔ نیم بے ہوشی کی حالت میں مجھے اس کا مدھم سا چہرہ ابھی تک یاد ہے۔ وہ پولیس کی وردی میں تھا جب میں مکمل ہوش میں آیا تو میں نے دیکھا کہ ہمارے رپورٹر دوست راو عمران نے مجھے اٹھا کر پریس کلب پہنچایا اور بعد میں ایمبولینس منگوا کر جناح اسپتال پہنچایا۔
ہم زندگی کے معمولات کے دوران ہر آئے دن کسی نہ کسی پولیس والے سے ٹکراتے ہیں۔ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر انہی پولیس والوں کو بہت ہی برا بھلا بھی کہتے ہیں۔ کچھ لوگ تو شاید کالی وردی والے ان جوانوں سے نفرت بھی کرتے ہوں، لیکن میں اپنی تیس سالہ صحافتی تجربات بیان کرتے ہوئے اپنی ایمانداری کے ساتھ یہ نا پسندیدہ سچ بتا دوں کہ ہماری پولیس اتنی بری نہیں ہے اور ہماری پولیس کی اتنی زیادہ قربانیاں ہیں کہ شاید ہی کسی دوسری فورس نے شہریوں کی زندگیاں بچانے کے لئے دی ہوں۔
میں نے نوے کی دہائی میں جن پولیس افسران کو قریب سے دیکھا ان میں سے کچھ بڑے عہدوں تک پہنچ گئے لا تعداد ریٹائرڈ ہوگئے لیکن تب ان افسران نے بڑی جوان مردی کے ساتھ شہر کراچی میں دہشت اور وحشت کا مقابلہ کیا تھا۔ اے ڈی خواجہ، ثناۂ اللہ عباسی، بشیر احمد میمن، غلام نبی میمن، غلام حیدر جمالی، میر زبیر، سعود مرزا، مشتاق مہر، مشتاق شاہ دین محمد بلوچ سمیت کئی افسران تھے جنہوں نے پولیس کو کمان کیا تھا۔ بات صرف کمان کی ہی نہیں اس سے زیادہ قربانی تو ان پولیس افسران اور اہلکاروں کی تھی جو میدان جنگ میں دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے تھے۔ اس زمانے میں آپریشن کرنے والے پولیس اہلکاروں کی باقاعدہ ہٹ لسٹ بنی تھی جنہیں ایک ایک کرکے نشانہ بنایا گیا۔ جس طرح نوے کی دہائی میں شہری دہشت گرد اور مافیا نے پولیس کو نشانہ بنایا، پھر اس کے بعد طالبانائزیشن نے بھی کراچی میں پولیس کو نشانہ بنایا۔ مختلف مذہبی انتہا پسند گروہوں نے پولیس کا شکار بنا کر شاہراہوں پر خون میں نہلایا۔ آج بھی کہیں بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے سب سے پہلے پولیس ہوتی ہے۔ ہم پولیس پر تنقید کرتے ہیں۔ ہم پولیس افسران کی تقریروں میں روزانہ لفظ “کالی بھیڑیں“ سنتے ہیں۔ بھیڑوں کے ریوڑ میں ایک آدھ کالی بھیڑ ہوگی مگر پیارے پاکستان کا وہ کون سا شعبہ ہے جہاں کالی بھیڑیں بڑی تعداد میں موجود نہ ہوں۔ وردی میں ہوں یا بغیر وردی کے، ہر جگہ ہر لمحہ ہر شعبہ زندگی میں “کالی بھیڑوں“ کا ہی تو راج ہے۔
پولیس میں کالی وردی ہی نہیں سفید وردی والوں پر بھی عوام کا زیادہ غصہ ہوتا ہے۔ ٹریفک پولیس اصلاحات کے لئے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو اسلام آباد میں بریفنگ دیتے ہوئے ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی تھی، جس نے جنرل صاحب کو بہت متاثر کیا تھا اور اس بنیاد پر ٹریفک پولیس اہلکاروں کے لئے مراعات کا اعلان ہوا تھا۔ یہ ڈاکیومینٹری بنانے کا خیال معروف پولیس افسر میر زبیر کا تھا۔ شاید 2005 کی بات ہے، میں انڈس ٹیلی وژن میں رپورٹر تھا۔ ایک دن اچانک چیف ایگزیکٹو غضنفر علی کی خاتون سیکریٹری کا حکم ملا کہ آپ کو “باس“ بلا رہے ہیں۔” میں پہنچا تو سی ای او صاحب کے کمرے میں دو تین پولیس افسران موجود تھے۔ سب سے ہاتھ ملایا۔ ایک افسر پولیس وردی میں تھے جو جانے پہچانے تھے۔ وہ اس زمانے کے ڈی آئی جی ٹریفک سعود مرزا تھے۔ دوسرے صاحب میر زبیر تھے، جن سے میری پہلی ملاقات تھی۔ باس نے مختصر بات کرتے ہوئے سعود مرزا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرے دوست ہیں۔ ان کو ایک ڈاکیومینٹری بنوانی ہے۔ کیسے بنوانی ہے وہ آپ کو گائیڈ کریں گے۔ اور جو بھی بولیں وہ کرنا ہے۔ ظاہر ہے ٹی وی چینل کے مالک کا حکم تھا، جو میرے لئے حرف آخر تھا۔ میر زبیر نے مجھ سے میرا موبائل فون نمبر لیا اور جلد رابطہ کرنے کا کہا اور میں باس کے کمرے سے باہر آگیا۔ میں یہ ہی سوچ رہا تھا کہ کس مصیبت میں پھنس گیا۔ خیر کچھ دنوں بعد سی پی او میں ابتدائی میٹنگ ہوئی۔ مجھے میر زبیر نے پورا معاملہ سمجھایا کہ کرنا کیا ہے۔ میں نے اپنے تجویز دی کہ ہمیں کسی کریکٹر کو لینا چاہئے اور حقیقی کردار سے کہانی شروع کرنی چاہئے۔ کردار ایسا ہو جو ٹریفک پولیس کا سپاہی ہو، ایماندار ہو، کرپٹ نہ ہو، معاشی مسائل کا شکار ہو، کرائے کے گھر میں رہتا ہو، بچے اسکول پڑھتے ہوں، بہت فاصلہ کرکے ڈیوٹی پر آتا ہو۔ اس قسم کا ٹریفک سپاہی ڈھونڈنے کے لئے کچھ دنوں کے بعد ڈی آئی جی ٹریفک نے کوئی تین درجن ٹریفک سپاہیوں کو اپنے دفتر طلب کیا۔ میر زبیر نے ایک ایک سپاہی کا انٹرویو کیا اور ایک بندے کی سلیکشن کردی۔ میر زبیر کے ساتھ ہماری دوسری میٹنگ گارڈن پولیس ہیڈ کوارٹر میں ان کی رہاش گاہ پر ہوئی جس میں ہم نے دستاویزی فلم کا پورا خاکہ تیار کیا اور کاغذ پر لکھا۔
ہم نے سوچا پہلے جو کردار طے کیا ہے اس کی ریکارڈنگ کرلیں، پھر اس بنیاد پر اسکرپٹ تیار کریں گے۔ چند ہی دنوں بعد طے شدہ پروگرام کے تحت کیمرہ ٹیم کے ساتھ میں مواچھ گوٹھ پہنچا۔ ٹریفک سپاہی کا دو کمروں پر مشتمل چھوٹا سا گھر، چھہ سات بچے اور ان پڑھ پردہ دار نیک نمازی اہلیہ۔ خاتون سے انٹرویو کیا تو وہ اپنے معاشی حالات پر رو پڑی۔ اسے صرف اس بات کا بہت دکھ تھا کہ وہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم بھی نہیں دلوا پا رہی۔ خیر ہم نے گھر سے پیدل نکل کر بس اسٹاپ تک پہنچتے اور بس پر سوار ہوتے ہوئے اپنے کردار کی فلم بندی کی۔ بس آگے جا رہی ہم کار پر اس کا پیچھا کر رہے۔ شیر شاہ پر ہمارے “ہیرو“ نے بس تبدیل کی، دوسری بس پر سوار ہوا۔ ہم پیچھا کرتے رہے۔ وہ آئی آئی چندریگر روڈ پر یونی پلازا کے سامنے صبح ساڑھے نو بجے اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہوگیا۔ ہم نے اس کو ایک گھنٹے تک کام کرتے ہوئے لوگوں سے لڑتے ہوئے ریکارڈ کیا۔ پھر انٹرویو کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ خدا نے زندگی میں جو لکھا ہے وہ ہی ملے گا لیکن میری تنخواہ بہت کم ہے۔ سات بچے ہیں، بس پر سفر کرتا ہوں، ایمانداری سے جینا چاہتا ہوں۔ حکومت سے اتنی سی گزارش ہے کہ ہماری تنخواہ پر نظرثانی کرے۔ کم از کم ہم پولیس والوں کے بچوں کو تعلیم اور ہمیں علاج کی مفت سہولت میسر ہو۔ یہ ٹریفک سپاہی سندھ کے آج کل کی حکمرانوں کے شہر سے تعلق رکھتا تھا اور اس کا نام اور ذات سن کر پڑھنے والوں کو زیادہ حیرت ہوگی۔ یہ سپاہی نواب شاہ کا علی مراد زرداری تھا۔ دستاویز فلم بنانے میں تو ہمیں ایک ماہ سے زیادہ وقت لگا۔ میر زبیر اسکرپٹ اور ایڈٹنگ میں تبدیلیاں کرواتے رہے۔ فلم مکمل ہونے کے بعد انہوں نے اسے اپنے لیب ٹاپ میں محفوظ کرلیا اور تین چار سی ڈیز بھی بنوائیں۔ بعد میں اسلام آباد میں صدر جنرل پرویز مشرف کی موجودگی میں پولیس کے شہدا کی یاد میں منعقدہ تقریب میں ڈی آئی جی میر زبیر نے مختصر پرزنٹیشن کے ساتھ اسکرین پر بیس منٹ کی وہ دستاویزی فلم چلائی۔ فلم کی اختتامی موسیقی ان دو سطروں کے ساتھ تھی
پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی
کرے گی دل سے خدمت آپ کی
ملک میں پولیس کے بارے میں عام تاثر اچھا کیوں نہیں ہے۔ اس سوال پر ہر پولیس اہلکار کو اپنے ضمیر سے پوچھنا چاہئے۔ میرے پاس اچھے اور برے پولیس افسران کے کئی واقعات ہیں جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پولیس میں زیادہ تعداد اچھے لوگوں کی ہے۔ چند ایسے بھی ہوں گے جو انسانوں کو ہاف فرائی اور فل فرائی کرنے کی ذہنیت رکھتے ہیں۔ بعض افسران اذیت گاہوں کے وارث ہیں تو بعض اربوں روپے کے بیوپاری بھی ہیں۔ لیکن آج بھی ملک کی پولیس میں زیادہ تعداد علی مراد زرداری جیسے سپاہیوں کی ہے جو اس دھرتی کے قابل فخر بیٹے ہیں۔