امید کی کرن
پاکستان اور ہندوستاان کے معاملات ہمیشہ سرد و گرم رہتے چلے آئے ہیں۔ دونوں ممالک اپنے قیام سے ہی کچھ دو طرفہ مساائل کی وجہ سے سماجی و سیاسی دوریوں کا شکار رہے ہیں۔ ماضی کی داستانوں میں سماجی، سیاسی اور صحافتی سطح پر ان دوریوں کو ختم کرنے کی تمام کوششیں ناکامی کا شکار رہیں اور کسی بھی واقعے نے ان کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ خاص کر ہندوستان کی جانب سے ہمیشہ ہی بات چیت کو ناکام بنانے کا سلسلہ جاری رہا، مگر اب لگتا ہے کہ برف پگھلنے کا وقت آگیا ہے.
دسمبر 2020 میں پہلی بار ہندوستان کی طرف سے سیز فائر کا اعلان ہوا جس پر پاکستان نے باقاعدہ طور پہ لبیک کہا۔ ماضی میں ہمیشہ یہ ہوتا آیا ہے کہ پاکستان اس جانب کوئی قدم بڑھاتا تھا تو ہندوستان اس کا یا تو باقاعدہ بائیکاٹ کر دیتا تھا یا پھر شرائط کا ایک انبار لگا دیتا تھا جو کہ قابلِ قبول نہیں ہوتی تھیں، مگر اس بار ہندوستان کی جانب سے ایک بہت بڑا قدم اٹھایا گیا ہے جو کہ واقعی قابلِ تعریف ہے۔ سیز فائر کے بعد اب ہندوستان نے اپنی اسٹرائک کور کو سرحدوں سے ہٹا لیا ہے جو کہ اس کی سیز فائر کی کوششوں کا ایک سنجیدہ ثبوت ہے۔ شاید کرونا کی تباہ کاریوں کا اثر ہو کہ ہندوستان یہ جان گیا ہو کہ وہ اپنی طاقت کو غلط سمت میں استعمال کر کے ضائع کر رہا ہے اگر اسے واقعی یہ احساس ہو گیا ہے تو یہ اس خطے کے مستقبل کے لئے انتہائی خوش آئند بات ہے۔ اب پاکستان کو بات آگے بڑھانے کی ضرورت ہے جیسا کہ خبروں میں آ رہا ہے کہ بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے مذاکرات جاری ہیں اور ہندوستان کی سنجیدگی بھی ان حالیہ اقدامات سے نظر آ رہی ہے تو اب پاکستان کو ضرورت ہے کہ وہ اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دے کیونکہ اس خطے کی بھلائی اور ترقی کے لئے ضروری ہے کہ دونوں مملک میں تعلقات میں بہتری آئے تاکہ دونوں ممالک اپنے وسائل کو ایک ددوسرے کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے اپنے ملک اور عوام کی بہتری کے لئے استعمال کرسکیں۔