ممتاز بھٹو: آکسفورڈ، فیوڈل ازم اور پاکستانی سیاست
عاجز جمالی
70 کی دہائی پاکستان کی سیاست، ادب، ٹی وی ڈرامہ، انقلابی تحریکوں، پارلیمنٹ اور عالمی پس منظر میں انتہائی اہم دہائی رہی۔ گذشتہ نصف صدی تک مجموعی طور پر ہمارا سماج ستر کی دہائی کے گرد ہی گھومتا رہا، شاید آج تک گھوم رہا ہے۔ 70 کی دہائی میں پی ٹی وی کا ایک سندھی ڈرامہ خان صاحب بڑا مشہور ہوا تھا۔ اس ڈرامے کو بعد میں اردو میں “چھوٹی سی دنیا“ کے نام سے ٹیلی کاسٹ کیا گیا تھا۔ معروف مصنف مرحوم عبدالقادر جونیجو نے سندھی، اردو اور انگریزی الفاظ پر مشتمل ڈائیلاگ کے ذریعے اس ڈرامے میں اتنی جان ڈالی تھی کہ “چھوٹی سی دنیا“ پوری دنیا میں مشہور ہوا، اس ڈرامے کے انگریزی اور جرمن زبان میں بھی ترجمے ہوئے۔ چھوٹی سی دنیا کا محور کچھ اس طرح تھا کہ “سندھ کے جاگیردار خاندان کا چشم و چراغ (رئیس مراد علی خان) انگلینڈ تعلیم حاصل کرنے جاتا ہے، ولایت سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب واپس گائوں آتا ہے تو وہاں سے کہانی شروع ہوتی ہے۔ رئیس مراد علی خان کا ڈائیلاگ “لنڈن سوئٹ لنڈن“ اور اوہ مائی گاڈ تب ہر بچے بڑے کی زبان پر ہوتا تھا۔ رئیس مراد علی خان صاحب گائوں پہنچ کر جہالت کے خاتمے کے لیے بہت سی کوشش کرتا ہے، لیکن بالآخر تھک ہار کر اسی نظام کا حصہ بن جاتا ہے۔
سندھ میں بھٹو خاندان کی تاریخ تو ایک الگ داستان ہے، لیکن بھٹو خاندان نے پاکستان کی سیاست میں 60 کی دہائی سے اتنا بھرپور کردار ادا کیا کہ سندھ میں آج بھی سیاست کے صرف دو ہی رُخ ہیں ایک بھٹو سیاست دوسری بھٹو مخالف سیاست۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ممتاز علی بھٹو کے دادا غلام مرتضی خان بھٹو کے دونوں بیٹوں شاہ نواز بھٹو اور نبی بخش خان بھٹو نے برطانوی راج میں اہم سیاسی کردار ادا کیا اور پھر ان دونوں بھائیوں کی اولادیں آج تک پاکستانی سیاست میں سرگرم ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ممتاز علی بھٹو چچا زاد بھائی ضرور تھے اور دونوں خاندان کے اندر ایک دوسرے کے گہرے دوست بھی تھے۔ ممتاز بھٹو ہمیشہ ذوالفقار علی بھٹو کو بڑا بھائی کہتے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو اُنہیں ٹیلنٹڈ کزن کہا کرتے تھے، لیکن یہ دونوں شخصیات ذاتی زندگی اور سیاست میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھیں بلکہ دونوں ایک دوسرے کے برعکس تھے، ہاں البتہ دونوں ہی برطانیہ کے ڈگری یافتہ اور انتہائی پڑھے لکھے تھے۔ ممتاز بھٹو نے بار ایٹ لا کرنے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی سے بھی ڈگری حاصل کی تھی۔
ممتاز بھٹو جب برطانیہ سے لوٹے تو بھٹو جاگیر میں شکار کرنے سے لے کر مختلف قسم کے جانور پالنا ان کا سب سے بڑا شوق تھا۔ ریس جیتنے والے گھوڑے اور سوئر کا شکار کرنے والے کُتے رکھنے کے ساتھ وہ اپنی ذاتی لائبریری میں دنیا بھر کے ادب کی کتابیں رکھتے تھے۔ ممتاز بھٹو پڑھے لکھے فیوڈل تھے۔ وہ چھٹیاں گزارنے یورپ جاتے تھے، لیکن مقامی وڈیروں اور سرداروں کے علاوہ نامی گرامی ڈاکووؑں سے بھی دوستی ہوتی تھی۔
ممتاز بھٹو سب سے پہلے کنونشن لیگ کے پلیٹ فارم سے 1965 میں رکن قومی اسمبلی بنے، جب ذوالفقار علی بھٹو کے فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان سے اختلافات شروع ہوئے تو ممتاز بھٹو نے صدر ایوب خان کے خلاف دھُواں دھار تقریر کی تھی۔ ویسے بھی ممتاز بھٹو بلا کے مقرر تھے۔
جب ذوالفقار علی بھٹو نے 1967 میں پیپلز پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا تو ممتاز بھٹو پیپلز پارٹی کے بنیادی ارکان میں شامل تھے۔
ممتاز بھٹو نے 1970 کے انتخابات میں لاڑکانہ سے مشہور سیاست دان قاضی فضل اللہ کو شکست دی اور جب ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بنے تو ممتاز بھٹو کو پہلے سندھ کا گورنر اور پھر وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا۔ ممتاز بھٹو کی وزارت اعلیٰ کا دور دو تین حوالوں سے سندھ کا متنازع دور رہا۔ ممتاز بھٹو کے دور میں ہی انجینئرنگ کالج کے لیکچرار اشوک کمار کو گرفتار کرانے کے بعد لاپتا کردیا گیا تھا۔ امریکا میں مقیم سندھ کے معروف صحافی حسن مجتبیٰ نے لکھا ہے “ممتاز بھٹو کے دور میں ہی سندھ کی تاریخ میں پہلی گمشدگی ہوئی تھی جب 1973 میں انجینئرنگ کالج کے لیکچرار اشوک کمار کو ممتاز بھٹو کے حکم پر ڈی ایس پی نیاز پیرزادو نے گرفتار کرکے گم کردیا تھا، جو آج تک لاپتا ہے۔“
یہی بات سندھ اسمبلی میں سابق وزیر قانون پیر مظہرالحق نے بھی تب کہی تھی جب ممتاز بھٹو سندھ اسمبلی میں اپوزیشن بینچوں پر تھے، لیکن دسمبر 1973 میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے وزیراعلیٰ سندھ ممتاز علی بھٹو کو تب تبدیل کیا تھا جب سندھی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کا سندھ اسمبلی میں بل منظور ہونے کے بعد فسادات شروع ہوئے تھے۔ ممتاز بھٹو کو ہٹاکر غلام مصطفیٰ جتوئی کو وزیراعلیٰ سندھ مقرر کیا تھا۔ سندھی زبان کا بل 1972 میں سندھ اسمبلی سے منظور ہوا۔ اس بارے میں ایک بار انٹرویو لیتے ہوئے ممتاز بھٹو سے سوال کیا تھا۔ میں نے پوچھا کہ آپ پر الزام ہے کہ آپ نے لسانیت کو ہوا دی جب سندھی زبان کا بل سندھ اسمبلی میں پیش کیا تھا؟ ممتاز بھٹو کہنے لگے، “یہ بالکل غلط تاثر ہے، میں کبھی بھی اردو زبان کے خلاف نہیں رہا لیکن سندھی لینگویج ایکٹ کا مقصد یہ تھا کہ اس خطے میں ہزاروں برسوں سے بولی جانے والی سندھی زبان کو سرکاری حیثیت حاصل ہو، جو سندھی زبان کا حق تھا اور سندھ کے عوام کا مطالبہ۔ ممتاز بھٹو کہنے لگے کہ رئیس امروہوی اور کچھ دیگر لوگوں نے بلاجواز لوگوں کو بھڑکایا تھا، جس وجہ سے فسادات ہوئے تھے۔”
اپنی تیس برسوں پر محیط صحافتی زندگی میں ممتاز بھٹو سے میں نے دس بارہ مرتبہ تفصیلی انٹرویوز کیے ہیں، جو اخبارات میں شائع یا پھر ٹی وی چینلز پر آن ایئر ہوچکے ہیں۔ ممتاز بھٹو پیپلز پارٹی سندھ کے صدر تھے اور بعدازاں وفاقی وزیر بنادیے گئے، لیکن جب 5 جولائی 1977 کو ملک میں مارشل لا نافذ ہوا تو ممتاز بھٹو کو بھی گرفتار کیا گیا، لیکن جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور بے نظیر بھٹو نے جدوجہد شروع کردی اور گرفتار کرلی گئی تھیں تو ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی ممتاز بھٹو نے رہائی کے بعد جلاوطنی اختیار کرلی تھی، اس باعث بے نظیر بھٹو نے غلام مصطفیٰ جتوئی کو پیپلز پارٹی سندھ کا صدر مقرر کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد 1980 کی دہائی میں ممتاز بھٹو کے پیپلز پارٹی سے اختلافات شروع ہوئے تھے، جب 1986 میں بے نظیر بھٹو نے جلاوطنی ختم کرکے پاکستان بھر کا دورہ شروع کیا، تب مخدوم خلیق الزمان پیپلز پارٹی سندھ کے صدر تھے۔
ایک بار انٹرویو کے دوران میں نے ممتاز بھٹو سے سوال پوچھا تھا کہ “بھٹو صاحب آپ پر الزام ہے کہ آپ مشکل وقت میں پارٹی اور بھٹو خاندان کو چھوڑ کر ملک سے باہر چلے گئے؟“ ممتاز بھٹو کا جواب تھا، جب پارٹی کی کمان بیگم صاحبہ (بیگم نصرت بھٹو) نے سنبھالی تھی تو میرا بیگم صاحبہ سے رابطہ تھا، لیکن مجھے کسی مشاورت میں شامل نہیں کیا جارہا تھا، جب بیگم صاحبہ کو پارٹی کی چیئرپرسن شپ سے ہٹاکر محترمہ (بے نظیر) کو چیئرپرسن مقرر کیا جارہا تھا، تب میں نے مخالفت کی تھی اور مجھے پارٹی کی صدارت سے ہٹانے کی دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ بھٹو صاحب کے دشمنوں کو پارٹی میں شامل کیا جارہا تھا، جس کی میں نے مخالفت کی تھی۔“
ممتاز بھٹو نے جلاوطنی کے دوران لندن میں سردار عطاء اللہ مینگل، حفیظ پیرزادو، افضل خان اور دیگر رہنمائوں کے ساتھ مل کر سندھی بلوچ پشتون فرنٹ بنایا، جب پاکستان آئے تو فرنٹ کے بڑے بڑے جلسے منعقد کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں وفاقی نظام ناکام ہوگیا، اب کنفیڈرل نظام چلے گا۔ اسی فرنٹ کو آگے چل کر سندھ نیشنل فرنٹ کا نام دیا گیا۔
ممتاز بھٹو کے بے نظیر بھٹو سے اختلافات کی کہانی تو تب سے شروع ہوتی ہے جب بے نظیر بھٹو سیاست میں سرگرم ہوئیں۔ 1988 کے انتخابات کے دوارن تو ممتاز بھٹو نے بے نظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کے بارے میں انتہائی نازیبا زبان استعمال کی تھی، جس کے خلاف پیپلز پارٹی نے سندھ بھر میں احتجاج کیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک بے نظیر بھٹو کے بعد آصف علی زرداری ہمیشہ ممتاز بھٹو کے نشانے ہر رہے۔ ممتاز بھٹو کہتے تھے کہ “بے نظیر بھٹو شادی کے بعد بیگم زرداری بن گئیں، ان کو بھٹو کہلوانے کا کوئی حق نہیں اور نہ مسٹر زرداری (آصف زرداری) کو بھٹو خاندان کی ملکیتوں پر کوئی حق ہے۔
1993 میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی اور مرتضیٰ بھٹو پاکستان آنے کے بعد گرفتار ہوئے تو ممتاز بھٹو نے مرتضیٰ بھٹو کے گھرانے کا ساتھ دیا۔ اور مرتضیٰ بھٹو کی رہائی کے بعد وہ مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ رہے۔ ممتاز بھٹو نے لندن سے واپسی کے بعد قوم پرست سیاسی دھارے کا رخ اختیار کیا، وہ سندھ میں بننے والے ہر سیاسی اتحاد کا حصہ رہے، لیکن اتحادوں میں چل نہیں سکے۔ سندھی قوم پرست رہنمائوں کو ان سے ہمیشہ یہ شکایت رہی کہ وہ ہر اتحاد میں ڈرائیونگ سیٹ چاہتے ہیں جب کہ ان کی پارٹی کی وہ حیثیت نہیں۔ ممتاز بھٹو یہ ہی کہتے رہے کہ سندھ کی جو بھی خدمت وہ کرسکتے ہیں، اس کے لیے حاضر ہیں۔
چونکہ سندھ میں ممتاز بھٹو واحد بھٹو ہیں جو بھٹو سیاست اور بے نظیر بھٹو کے مضبوط مخالف تصور کیے جاتے تھے، اس لیے جب 1996 میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کو قتل کیا گیا اور بے نظیر بھٹو کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو ممتاز بھٹو کو سندھ کا نگراں وزیراعلیٰ بنادیا گیا۔ مجھے اُس زمانے کے دو اہم واقعات یاد آرہے ہیں۔ ایک تو یہ تھا کہ نگراں وزیراعلیٰ نے تب کے ایس ایس پی سائوتھ اے ڈی خواجہ کو وزیراعلیٰ ہائوس طلب کیا اور ان سے کہا کہ مرتضیٰ بھٹو قتل کیس کی پولیس تحقیقات درست سمت میں نہیں ہورہی، اس مقدمے میں ابھی تک آصف زرداری کو فٹ نہیں کیا گیا، کیوں؟ ایس ایس پی اے ڈی خواجہ نے کہا کہ سر کیس کی تحقیقات ہورہی ہے جو بھی جائز ہوگا پولیس وہ ہی کرے گی، ہم زبردستی تو کسی کا نام شامل نہیں کرسکتے۔ اس ملاقات کی شام اے ڈی خواجہ کے تبادلے کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تھا، جن کو کراچی سائوتھ سے دادو بھیج دیا گیا تھا، یہ خبر جب ہم نے مشہور سندھی اخبار میں شائع کی تھی تو وزیراعلیٰ اخبار کے مالکان پر ناراض ہوئے تھے۔
اسی دور کا دوسرا واقعہ سندھی اخبارات پر ناراضی کی دوسری بڑی وجہ بنا۔ وہ یہ تھا کہ صدر مملکت فاروق لغاری ہر حال میں این ایف سی ایوارڈ کا اعلان کرنا چاہتے تھے، کیونکہ نگراں حکومت کے آخری ایام چل رہے تھے۔ ایک شام اچانک ایوان صدر سے حکم ملا کہ سندھ کے نمائندوں کو این ایف سی ایوارڈ پر دستخط کے لیے وزیراعلیٰ ہائوس کے طیارے پر اسلام آباد روانہ کیا جائے۔ سندھ کے نگراں وزیر خزانہ سابق چیف سیکریٹری کنور ادریس تھے اور صوبہ سندھ کے دوسرے نمائندے سینئر نگراں وزیر نبی بخش خان بھرگڑی تھی، جو اس دن بدین میں تھے۔ اطلاع یہ تھی کہ بدین ہیلی کاپٹر بھیج کر نبی بخش بھرگڑی کو کراچی پہنچایا گیا اور پھر دونوں کو اسلام آباد روانہ کیا گیا۔ نگراں حکومت کے آخری دو تین دن بچے تھے کہ صدر فاروق لغاری نے این ایف سی ایوارڈ کا اعلان کیا جو بعدازاں متنازع این ایف سی ایوارڈ رہا۔ اسی ایوارڈ کے متعلق سندھی اخبار کے صحافی نے ایک خبر لگائی تھی کہ ایوارڈ پر دستخط کے عوض ممتاز بھٹو کو ایک قیمتی کُتا گفٹ کیا گیا تھا۔ اس طرح کی خبر کے بعد مذکورہ صحافی پر جان لیوا حملہ ہوا تھا اور سخت تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، مذکورہ اخبار کی کاپیاں بھی نذرآتش کی گئی تھیں۔
ممتاز بھٹو نے 2013 کے انتخابات سے قبل سندھ نیشنل فرنٹ کو مسلم لیگ (ن) میں ضم کرلیا تھا اور مسلم لیگ ن کا حصہ بن گئے، تب ان کے فرزند امیر بخش بھٹو سیاست میں سرگرم تھے، جو سابق رکن سندھ اسمبلی ہیں۔ ممتاز بھٹو اور نواز شریف کے درمیاں تحریری معاہدہ ہوا تھا، لیکن پانچ سال کے دور حکومت میں مسلم لیگ سے ہمیشہ ان کو شکایت رہی، اس کے بعد ان کی عمران خان سے ملاقات ہوئی اور پی ٹی آئی کی سیاست میں شامل ہوگئے، حالانکہ کئی برسوں سے وہ سیاست میں غیر سرگرم رہے۔ وہ علالت کے باعث بھی سیاست سے کنارہ کش رہے اور ان کے فرزند امیر بخش بھٹو اور ان کے دیگر ساتھی پی ٹی آئی کا حصہ ہیں۔
ممتاز علی بھٹو گذشتہ روز کراچی میں انتقال کر گئے اور ان کی تدفین آبائی گائوں رتو ڈیرو میں ہوگئی۔ ممتاز بھٹو سندھ کی سیاسی تاریخ کے انتہائی اہم سرگرم اور متنازع کردار رہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ذہین طالب علم ممتاز بھٹو نے چند سال قبل خود کو بھٹو قبیلے کا سردار منتخب کروایا تھا اور خود کو سردار ممتاز علی خان بھٹو لکھتے تھے۔ وہ فیوڈل ازم کی قدروں کے بھی قائل تھے تو انگریزی ناول بھی پڑھتے تھے۔ وہ گورنر بھی رہے وزیراعلیٰ بھی، وفاقی وزیر بھی رہے۔ وہ بیک وقت قوم پرست بھی تھے تو وفاقی نظام کے بھی حامی تھے، لیکن کنفیڈریشن کے تصور پر آخری دنوں تک قائم رہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ممتاز بھٹو کی ایک اپنی دنیا تھی۔ پی ٹی وی کے ڈرامہ چھوٹی سی دنیا میں ولایت سے آنے والا رئیس مراد علی خان ایک گنوار شخص سے انگریزی بولنے کا مقابلہ ہار جاتا ہے اور اسی طرح تاریخ کا اہم کردار ممتاز بھٹو شاید تاریخ سے مقابلہ ہار چکے ہیں۔