میرے کراچی کا نصیب تو دیکھو

شاہ زیب خان

دنیاکے بڑے شہروں میں شامل۔ دنیا کا ساتھواں بڑا شہر، پاکستان کا سابقہ دارالحکومت ‘کراچی’ آج اپنی بدنصیبی کے عروج پرہے۔ ڈھائی کروڑ سے زائد آبادی اپنے اندر سمیٹے ہوئے لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے والا کراچی حکمرانوں کی بے حسی کاشکارہے، سیاسی جماعتوں کی ذاتی ”مصلحتوں” کی بھینٹ چڑھنے والے شہرقائد کے باسی منتظر ہیں کسی مسیحا کے کہ شاید ان کی تقدیر بھی کبھی بدلے اس شہرکوکبھی نسلی تصادم کی بھینٹ چڑھایا گیا توکبھی بوری بندلاشوں کے کھیل میں الجھادیا گیا۔

اس شہر کے حکمرانی کے دعویداروں نے بھی شہرکراچی سے کھلواڑ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ملک کے سب سے بڑے شہر میں آدھی سے زیادہ بستیاں پینے کے پانی سے محروم ہیں۔ سندھ میں محکمہ ٹرانسپورٹ توموجود ہے لیکن لوگ پبلک ٹرانسپورٹ سے محروم ہیں۔ گیس نہیں، تو کہیں بجلی نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اقتدارکے ایوانوں میں شہر کے باسیوں کی اب کہیں شنوائی بھی ہوتی نظر نہیں آتی، کہتے ہیں کہ کسی کے نصیبوں کو نہیں بدلا جاسکتا لیکن شہر کراچی کی حالت بھی تو بدلنے کو کوئی تیار نہیں۔ اس شہر کے باسیوں نے جسے بھی اقتدار سونپا۔ اسے عزت دی، سیاست میں نام دیا، اونچا مقام دیا۔ بظاہرشہر کے منتخب نمائندے قومی و صوبائی اسمبلیوں اورسینٹ میں موجود تو ہیں لیکن شہرکی قسمت بدلنے کے لئے  آوازحق بلند کرتے نظر نہیں آئے، شہرکراچی کے لوگ کوئی بات کبھی بھولتے نہیں پھرچاہے ان کے ساتھ ظلم اورزیادتی ہو یا پھران سے محبت اس شہرکے باسی بڑے باشعور، تعلیم یافتہ اورسیاسی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔

حکمرانوں کوخود اپنے مفاد میں ضرورسوچنا چاہئے کہ شہر کوہمیشہ جوتے کی نوک پررکھ کراورانہیں ہرقسم کی اذیت دے کران کی ہمدردی وہ کبھی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ حکمرانوں کوایسے گھٹیا مشورے دینے والے شاید بھول گئے کہ اس شہرکے باشندوں کے دلوں کومحبت، پیاراورخلوص سے توجیتا جاسکتا ہے لیکن اگر ان کو تیسرے درجے کے شہری کی حیثیت دے کرسیاسی کامیابی کا اگر کوئی خواب دیکھتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ شہرکی بدنصیبی کیسی بھی ہو۔ شہر پر حق حکمرانی کے دعویدار کتنے ہی دائو پیج کیوں نہ کھیلیں لیکن مختلف مسائل میں جکڑے اس شہرکے لوگ کئی سال سے انتہائی اذیت میں زندگی گزارنے کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور حوصلے سے ہرقسم کے حالات کا مقابلہ کیا اور اب بھی کررہے ہیں۔

شہر کے باسیوں نے کبھی بھی اپنے نصیبوں کو کوسنے نہیں دیے۔ آج بھی یہ شہر بے شک خود بدحال ہے لیکن پھر بھی پورے ملک کو چلارہا ہے۔ بے شک حکمرانوں نے شہر کے باسیوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کے نام پرچنگچی رکشوں سے بہلایا ہو۔ چاہے کئی کئی روزبستیوں میں پینے کا پانی دستیاب نہ ہو۔ سڑکیں چلنے کے قابل نہ رہی ہوں۔ گلیاں اورسڑکیں کچرا کنڈی بنی ہوں۔ سیوریج کا پانی چاہے گھروں میں گھس رہا ہو یا پھراتنے بڑے شہر میں غریبوں کے لئے علاج معالجے کی سہولتیں ناپید ہوں لیکن یہ شہر پھر بھی سارے ملک کو پالتا ہے۔ شہر کے بگڑے نصیب اپنی جگہ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ شہرکی عوام کے دل صرف اور صرف محبت سے جیتے جاسکتے ہیں نفرت سے نہیں۔ اب اس شہر کے کوئی نصیب تو دیکھو کہ ملک کی گیارہ بڑی سیاسی جماعتوں نے یہاں جلسہ کیا لیکن اس شہرسے لا تعلقی کی انتہا کردی۔ کسی لیڈر کے منہ سے شہر قائد کے لئے ایک لفظ تک نہ نکلا۔ کسی سیاسی جماعت نے شہر کے مسائل کا ذکرتک کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس شہرکواپنوں نے بھی لوٹا توغیروں نے بھی جی بھرکر ستم ڈھائے اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ دیکھتے ہیں شہرکے نصیب کب جاگتے ہیں۔ اپنے اورپرایوں کے دیے گھائو کب بھرتے ہیں کیونکہ امید پر دنیا قائم ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔