خود کشی (قسط نمبر 3)
ہوا میں قدرے خنکی گلی ہوئی تھی۔ ہر طرف سناٹے کا راج تھا۔ دور گاہے بگاہے آورہ کتے وقفے وقفے سے بھونک کر اس خاموشی کی سلطنت میں رخنے ڈالتے رہے تھے۔ صبح کی بھینی بھینی کٹے ہوئے فصلوں کی بو سے لدے ہوئے جھونکے کسی نئی صبح کی نوید سنا رہے تھے۔ اب مجھ میں اتنی بھی ہمت نہیں رہی تھی کہ میں رسی کی گرہ ذرا کھول کر گردن میں ڈال لوں۔ کھبی کھبار ہم اپنے آپ سے کتنے تھک جاتے ہیں؟
جیسے پوری دنیا کی بوجھ ایک ہم پہ لدی ہوئی ہے۔ اب محلے کے صوفی نما مرغائیں لمبی لمبی چیخوں کے ساتھ نمازیوں کو باجرے کے دانوں کی طرح ایک ایک کرکے چھگ رہے تھے۔ محلے کے مولوی صاحب لوٹا اٹھا کر رفع حاجت کیلئے کھلے میدان کی طرف جارہے تھے، جن کا وجود دور سے مجھے کچھ دھندلا دھندلا سا نظر آرہا تھا۔ ایک سیکنڈ کیلئے مجھے لگا شاید حقیقت بھی اسی طرح ہو کہ یہ لوگ دین کو بھی ہمیں کہیں کوئی دھندلی صورت میں دکھا تو نہیں رہے ہیں؟ پھر جلدی سے یہ خیال ذہن سے جھٹک دیا۔ ایک بار پھر کمرے میں ٹہلتے ہوئے مجھے لگا کہ کاش میں اپنے محبوب ترین انسان کے نام کوئی آخری پیغام چھوڑ دیتا تو بہت بہتر ہوتا۔ اب تک زندگی نے مجھے اس سے بات کرنے کی جتنی بھی مواقع دیے تھے وہ سب میری نظر میں ادھورے تھے۔ ان تمام مواقع پہ ہماری گفتگو میں کوئی نہ کوئی شے ہمیشہ مخل رہتی، لیکن آج کی رات مجھے اس سے بہت کچھ کہنا تھا۔ یہی سوچ کر میں لکھنے کیلئے ایک سادہ کاغذ لیکر بجھے دل کے ساتھ لکھنے بیٹھ گیا۔
"میری پیاری! آج کی رات شاید میری آخری رات ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ خودکشی کی روایتیں بھی کتنی پھٹی پرانی ہیں۔ جھولتا پنکھا، زہر کی کڑوی پُڑیا، کھردری سخت رسی کا پھندا، بجلی کی لٹکتی تاریں، زنگ آلود ٹرین کی پٹڑیاں، سال خوردہ کھڑکیوں سے لگائی گئی چھلانگوں سے پیوست زندگی کی آخری چیخیں، ٹھاٹھیں مارتے سمندروں کی موجیں۔۔۔ میں گزشتہ کئی روز سے موت کا کوئی آسان طریقہ اور شائستہ طریقہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا ہوں۔ تم مجھے بزدل سمجھنے کی غلطی مت کرنا۔ میں بڑی حد تک جری انسان ہوں، لیکن رومانیت کے معاملے مِیں مَیں انتہائی درجے کا بزدل ہوں۔ جہاں کہیں بھی حسن کو دیکھتا ہوں وہیں رک جاتا ہوں، قدم بوجھل ہوکر ڈگمگانے لگتے ہیں۔ میں کمپرومائز کا قطعی مخالف ہوں، لیکن گزشتہ چند دنوں سے میری مایوسی روز بہ روز بڑھتی چلی جارہی ہے۔ خود کو تنکے کا سہارے کیلئے بھی بے بس دیکھ کر اب میں مزید اسی گھٹن میں سانسیں نہیں لے سکتا ہوں۔ میری آنکھیں سوجی ہوئی ہیں، میرے منہ کا ذائقہ لمحہ بہ لمحہ کڑوا ہوتا چلا جارہا ہے، سانسیں پھولنے لگی ہیں، زندگی کتنی مشکل ہوتی جارہی ہے! آج کا نیوز پیپر تم نے تو دیکھا ہوگا۔ ایک لڑکی 23 منزلہ عمارت سے چھلانگ لگا کر زندگی سے جان چھڑانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اس سے ملتی جلتی کئی اور ڈھیر ساری خبریں روز اخباروں میں شائع ہوتی ہیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے ایسی خبروں کو پڑھ کر میں مزید زندگی میں کوئی دل چسپی لے سکتا ہوں؟ ہاں، گزشتہ چند روز سے میں بری طرح سے مصروف ہوں تاکہ میں اپنی موت کے کیلئے کوئی بہتر سے بہتر طریقہ تلاش کر سکوں۔ تمہیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں ہر دن خودکشی کے کئی نئے طریقوں سے روشناس ہوتا ہوں، لیکن میری طرح خودکشی کا کوئی انوکھا طریقہ اب تک کسی کو سوجھ نہیں رہا ہے۔ بڑھتی مایوسی اور بے بسی کو دیکھ کر میں کنفیوژن کا شکار ہوں کہ اپنی موت کیلئے کون سا طریقہ اختیار کروں؟ بجلی کی تاروں کو ہاتھ لگاؤں؟ ارے چھوڑ پگلی، کل تو میں نے اسی فارمولے پہ عمل کیا لیکن جیسے ہی میں نے تار کو پکڑا بجلی چلی گئی، تب سے اب تک ہمارے گھر میں بجلی ہی نہیں ہے۔ ماں ہر وقت واپڈا والوں کو بد دعائیں دیتی رہتی ہے۔ میں بھی ہر دعائے بد پہ آمین ثم آمین کہتا چلا جارہا ہوں۔ شاید قدرت کو میری موت منظور نہیں ہے، لیکن اس بار قدرت سے میری کھلی جنگ ہے۔ اب کے بار کوئی ایرا غیرا نتھو خیرا مجھے موت سے بچا نہیں سکتا۔ ہاں پگلی، تم روزانہ کے حساب سے نیوز پیپرز پڑھ لیا کرو؟ کل کی سرخی میں میری تصویر چھپی ہوگی، ارے ہاں، رنجیدہ ہوکر میری تصویر کو کتابوں کی زینت مت بنانا؟ اگر مجھ سے اتنی ہمدردی ہے تو آج رات میرے ساتھ ساحل سمندر پہ آنا؟ بیئر کی ایک ٹھنڈھی بوتل بھی ساتھ لانا تاکہ میں سمندر کنارے اپنے پیروں کو پنڈلیوں تک پانی میں ڈبو کر بیئر کے نشیلے گھونٹ لیتا رہوں۔ ہاں کیمرے کی کوئی ضرورت نہیں، صبحِ کاذب کے وقت میری موت واقع ہوگی۔ کل کے نیوز پیپر سے میری تصویر چرا لینا۔ آپ کا اپنا گرگ۔ ” (جاری ہے)