پروفیسر ظاہر علی کا قتل اور کراچی میں اسٹریٹ کرائم کا نوحہ

پروفیسر ظاہر علی نے گیارہ جون کی دوپہر اپنے معمول کے کام ختم کرکے گھر جاتے ہوئے شاید سوچا بھی نہ ہوگا کہ آج وہ زندہ آنکھوں اپنے گھروالوں کو نہیں دیکھ سکیں گے۔ بہادر آباد میں اپنی رہائش گاہ جانے سے قبل پروفیسر ظاہر علی نے اپنے ڈرائیور کو اسٹیڈیم روڈ کے قریب اس کے گھر چھوڑا، جہاں سے واپسی کے لئے مڑتے ہی موٹر سائیکل سوار ملزمان پہنچ گئے۔ گاڑی چھیننے کی کوشش کے دوران مزاحمت پر ملزمان نے فائرنگ کردی اور فرار ہوگئے۔ زخمی پروفیسر ظاہر علی کو فوری اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہوسکے۔

کراچی میں مال لوٹنے والے جان بھی لے لیتے ہیں۔ ایسا اس شہر میں آئے دن ہوتا ہے۔ لیکن پروفیسر ظاہر علی کا کیس اس حوالے سے قابل ذکر ہے۔ پولیس نے چوبیس گھنٹوں سے پہلے ہی نہ صرف اس اندھے قتل میں ملوث ملزمان کو گرفتار کیا بلکہ ملزمان کے سہولت کار کو بھی دھرلیا۔

ایس پی گلشن اقبال معروف عثمان کا کہنا ہے کہ پرفیسر ظاہر علی کےقاتل سمیت تین ملزمان کو خفیہ اطلاع پر گرفتار کیا گیا۔ تیسرا ملزم سہولت کار ہے ملزمان نے دوران تفتیش انکشاف کیا ہے کہ واردات کے وقت وہ نشے میں تھے۔ ڈکیتی کے دوران فائر کیا۔ گرفتار سہولت کار ملزمان کو کرائے پر پستول دیتا تھا۔ ملزمان پروفیسر کے قتل کے بعد بھی شہری کو لوٹ رہے تھے۔ ملزمان نے دوران تفتیش 22 وارداتوں کا انکشاف کیا ہے۔ ذاکر نامی سہولت کار اسلحہ اور پناہ کے لئے جگہ دینے کے عوض ہر واردات کا پچاس فیصد لیتا تھا۔ ایس پی گلشن اقبال معروف ٰعثمان کے مطابق ملزم رستم پٹھان نے فائر کیا۔ ابراہیم بنگالی موٹرسائیکل چلارہا تھا۔ ایس پی گلشن اقبال کا کہنا ہے کہ ملزمان نے پروفیسر کے قتل سے قبل بھی خاتون سمیت دو شہریوں کو لوٹا۔ ملزم ذاکر پہلے بھی جیل کاٹ چکا ہے۔

پروفیسر ظاہر علی کے قاتلوں کی بروقت گرفتاری پر کراچی پولیس شاباش کی مستحق ہے لیکن ڈکیتی مزاحمت پر شہریوں کے زخمی ہونے یا جان سے چلے جانے کے واقعات اور ملوث ملزمان کی گرفتاری کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو پولیس کی کارکردگی بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ کراچی میں پولیس اور رینجرز کے آپریشن کے بعد دہشتگردی، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے کیسز کم ہوئے لیکن پولیس کبھی بھی اسٹریٹ کرائم کے جن کو بوتل میں بند نہ کرسکی۔

سی پی ایل سی رپورٹ کے مطابق رواں سال جنوری میں 10 گاڑیاں چھینی گئیں اور فروری میں یہ تعداد 16 ہوگئی۔ مارچ میں 21 اور اپریل میں 28 اور مئی میں 13 گاڑیاں چھینی گئیں۔ اسی طرح جنوری میں چوری کی گئی گاڑیوں کی تعداد 160 رہی۔ فروری میں 139، مارچ اور اپریل میں یہ تعداد ایک جیسی رہی اور مئی میں 121 گاڑیوں سے شہری محروم ہوئے۔

شہر میں جنوری میں 276 موٹرسائیکلیں اسلحے کے زور پر چھینی گئیں۔ فروری میں 353، مارچ میں 426، اپریل میں 379 اور مئی میں یہ تعداد 302 رہی۔ جنوری میں 3649 موٹرسائیکلیں پولیس کی ناک کے نیچے سے چوری کی گئیں۔ فروری میں 3369، مارچ میں 3898، اپریل میں 4129 اور مئی میں 3995 موٹرسائیکلیں چوری ہوئیں۔

اس رپورٹ کے مطابق چھینے گئے موبائل فونزکی تعداد بھی حیران کن رہی۔ جنوری میں شہریوں سے 2013 موبائل فونزچھینے گئے، فروری میں 1795، مارچ میں 2174، اپریل میں 2189 اور مئی میں 2067 شہریوں کو موبائل فونز سے محروم کیا گیا، جب کہ بات صرف یہی تک نہیں رکی۔ شہر میں اغوا برائے تاوان کی صرف 5 ماہ میں 7 وارداتیں رپورٹ ہوئیں، جبکہ ایک بینک ڈکیتی بھی 5 ماہ میں رپورٹ ہوچکی ہے۔

سی پی ایل سی کے اعداد و شمار کے حساب سے ہی کراچی کے مختلف علاقوں میں شہریوں سے لوٹے جانی والی اشیاء کی ریکوری کا تناسب زیادہ حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ رواں سال جنوری میں 50 شہریوں کو ان کی گاڑیاں واپس مل سکیں ، فروری میں53، مارچ47،اپریل27، مئی میں 20 گاڑیاں اصل مالکان کو ملیں۔ جنوری میں343 موٹرسائیکلیں شہریوں کو واپس مل سکیں، فروری میں267، مارچ میں246، اپریل میں232 اور مئی میں 215موٹر سائیکلیں برآمد ہوسکیں۔ رواں سال جنوری میں 313 شہریوں کو ان کے موبائل فون واپس مل سکے، فروری میں ایک بھی موبائل فون برامد نہ ہوسکا۔مارچ میں 3 اپریل اور مئی میں بالترتیب دو دو موبائل فونز برامد ہوسکے۔

یہ تو اعداد و شمار ہیں ان مادی اشیاء کی جس کا کسی نہ کسی طرح ازالہ ہوسکتا ہے لیکن لٹیروں کے ہاتھوں قتل ہوجانے والی معصوم لوگوں کے ورثاء کے زخموں پر کوئی مرہم نہیں رکھ سکتا۔ سوال یہ ہے کہ کس طرح لوٹ مار اور مذاحمت پر شہریوں کے قتل کی روک تھام کی جاسکے وہ کون سے اقدامات ہیں جس کے نتیجے میں قاتل فوری پکڑے جاسکتے ہیں۔

ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ سندھ غلام نبی میمن جو اس سے قبل سی سی پی او کراچی بھی رہ چکے ہیں جرائم کے خاتمے کے لئے کمیونٹی پولیسنگ پر زور دیتے ہیں غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بیروزگار اورنشے کے عادی افراد لوٹ مار یا چوری کی وارداتوں میں ملوث ہوتے ہیں یہ ایک سماجی لعنت ہے جس کے خاتمے کے لئے سوسائٹی کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا ان کا کہنا ہے کہ متاثرہ شہریوں کی واردات ہونے کے بعد پولیس میں فوری رپورٹ کرنی چاہئے تاکہ اسکے سدباب کے لئے اقدامات کئے جاسکیں۔ غلام نبی میمن جرائم کے قلع قمع کے لئے پولیس اور دیگر اداروں کے باہمی ورکنگ رابطوں کی مضبوطی پر زور دیتے ہیں۔

سماجی ماہرین کراچی جسیے بڑے شہر میں اسٹریٹ کرائم کے خاتمے کیلئے سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت پولیسنگ کی اہمیت پر متفق نظر آتے ہیں امن و عامہ کے لئے ہمیشہ خطیر رقم ہر بجٹ میں رکھی جاتی ہے شہر میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب سے بھی جرائِم میں کمی اور ملوث ملزمان کی گرفتاری میں مدد مل سکتی ہے اس کے علاوہ سخت قانون بنانے کی بھی ضرورت ہے جس کے تحت گرفتار ملزمان آسانی سے باہر نہ آسکیں پروفیسر ظاہر علی جیسی علمی شخصیت لٹیروں کے ہاتھوں اس دنیا سے چلے گئے ان کا کیس ہائی پروفائل تھا جس کی وجہ سے پولیس متحرک بھی رہی اور چند واقعاتی شواہد کی بنا پر ملزمان پکڑے گئے ورنہ شہر کی تاریک راہوں میں اپنی قیمتی اشیا اور بعض اوقات جان سے جانے والے شہریوں کے قاتل کم کم ہی اتنی جلدی پکڑے جاتے ہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔