عمران خان، سیاست اور کھیل کے میدان کا یکساں شہسوار

حنید لاکھانی

وزیراعظم عمران خان آج انہتر برس کے ہوگئے۔ بچپن ہی سے جیت کا رجحان رکھنے والے عمران خان نے نہ صرف کھیل بلکہ سیاست اور خدمت کے میدانوں میں بھی یکساں کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ 

صدر ممنون حسین عمران خان سے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لے رہے ہیں

عمران خان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بائیسویں وزیراعظم ہیں اور ساتھ ہی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ بھی ہیں۔ خاردارِ سیاست میں قدم رکھنے کے بعد اپنی وزارتِ عظمیٰ سے قبل انہوں نے تین مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے کامیابی حاصل کی، تاہم 2018 کے عام انتخابات میں وہ نہ صرف چوتھی مرتبہ ایوان زیریں کے رکن منتخب ہوئے بلکہ اس منتخب ایوان نے انہیں وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے لیے بھی منتخب کرلیا۔ بطور وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنی کابینہ کے لیے ان چنیدہ ارکان پارلیمنٹ کا انتخاب کیا، جو نہ صرف سیاست بلکہ دیگر امور مملکت چلانے میں بھی ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ صحت کا میدان ہو یا صنعت کا، وہ معیشت ہو یا کھیلوں کا شعبہ، ہر جگہ ایسے نگینے خان صاحب نے فٹ کیے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں کو ملک کا بہترین شعبہ بنا دیا ہے۔

کرکٹ ورلڈ کپ 1992ء جیتنے کے بعد عمران خان کا ٹرافی کے ساتھ ایک فاتحانہ انداز

پانچ اکتوبر 1952 کو پیدا ہونے والے عمران خان نے ابتدائی تعلیم لاہور میں کیتھیڈرل اسکول اور ایچی سن کالج اور پھر انگلینڈ کے رائل اسکول ویلسٹر اور بعد ازاں کیبل کالج آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کی۔ ان کے کرکٹ سے عشق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے تیرہ برس کی عمر میں کرکٹ کھیلنا شروع کردی تھی۔ کرکٹ کو اپنا پروفیشن بنانے سے قبل انہوں نے اپنے کالج اور پھر ویلکش شائر کے لیے کرکٹ کھیلی۔ پاکستان کی قومی ٹیم میں انکی انٹری 18 برس کی عمر میں ہوئی اور پھر اسی برس انہوں نے برمنگھم میں انگلینڈ کے خلاف کھیل کر انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی انٹری دے دی۔ انہوں نے پوری قوت اور جانفشانی سے کرکٹ کھیلی اور اس وقت تک کھیلتے رہے جب تک انہوں نے پاکستان کو کرکٹ کا عالمی چیمپئن نہ بنا دیا۔ یہ یادگار لمحات 1992 کے تھے، جب عمران خان قوم کے ہیرو بن گئے۔

عمران خان کا کرکٹ کا کیریئر بے شمار کامیابیوں سے سجا ہوا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اٹھاسی ٹیسٹ میچ کھیلے۔ ان میچوں میں انہوں نے تین سو باسٹھ وکٹیں حاسل کیں۔ لاہور میں 1981-1982میں سری لنکا کے خلاف کھیلے جانے والے میچ میں عمران خان نے صرف اٹھاون رن دے کر مخالف ٹیم کے آٹھ کھلاڑیوں کو ڈھیر کیا تھا۔ بطور بیٹسمین انہوں نے اپنے کرکٹ کیریئر میں اڑتیس ہزار سات رنز بنائے۔ انہیں دنیا کا کامیاب ترین کیپٹن بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی کپتانی میں پاکستان کی قومی ٹیم نے اڑتالیس میچ کھیلے تھے اور ان میچوں میں چودہ میچوں میں فتح حاصل کی تھی جبکہ آٹھ میچوں میں پاکستان کو شکست ہوئی اور چھبیس میچ ڈرا ہوگئے تھے۔ انہوں نے 36.69 کی اوسط سے 3807 رنز بنائے جن میں سے 5 سنچریاں بھی شامل ہیں۔ ان کا زیادہ سے زیادہ سکور ایڈی لینڈ میں 1991ء میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلتے ہوئے 132 رنز رہا۔ ان کا شمار پاکستان کرکٹ کے کامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے وہ پاکستان کے پہلے کپتان تھے جن کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے بھارت کو بھارت اور انگلستان کو انگریزی سرزمیں میں ہرایا۔ بطور کپتان انہوں نے 48 ٹیسٹ میچ کھیلے جن میں سے 14 جیتے اور 8 ہارے اور 26 برابر یا بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوئے۔

عمران خان کا قائم کردہ ملک کا سب سے بڑا شوکت خانم کینسر اسپتال

کرکٹ کو خیرباد کہنے کے بعد عمران خان نے نہ صرف عالمی صحافتی اداروں میں کرکٹ سے متعلق آرٹیکل لکھے، بلکہ بعض اسپورٹس چینلز پر بطور مبصر بھی شریک ہوتے رہے ہیں۔ انہیں بطور کپتان سب سے زیادہ وکٹیں اپنے نام کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ عمران خان 1992ء میں کرکٹ ورلڈ کپ پاکستان کے نام کرنے کے بعد نہ صرف کرکت سے ریٹائر ہوگئے بلکہ انہوں نے اپنی والدہ کے نام پر شوکت خانم ٹرسٹ قائم کیا اور ملک کے پہلے کینسر اسپتال کی بنیاد رکھی۔ یہ اسپتال ملک میں کینسر کے علاج کا سب سے بڑا ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

عمران خان نے 25 اپریل 1996 کو سیاسی میدان میں اپنی دبنگ انٹری دی اور ملکی کرپٹ نظام میں تبدیلی کے لیے ایک نئی سیاسی جماعت قائم کی، جس کا نام انہوں نے پاکستان تحریک انصاف رکھا۔ ابتدائی برسوں میں اس جماعت کو عوامی پذیرائی حاصل نہ ہوسکی اور یہ جماعت پارلیمنٹ میں زیادہ نشستیں حاصل نہ کرسکیں، تاہم 23 برس کی لگاتار محنت کا ثمر 2018 کے انتخاب میں سامنے آیا اور پاکستان تحریک انصاف حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ آج عمران خان ملک کے منتخب وزیراعظم ہیں اور ماضی کے کرپٹ نظام کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ ان کی کوششوں سے نہ صرف ملک سے کرپشن کم کرنے میں مدد ملی ہے بلکہ ملکی معیشت کا والیم بھی بہتر ہوا ہے۔ اس بہتری سے دنیا بھر میں پاکستان کا وقار بھی بلند ہوا ہے اور معاشی دنیا میں پاکستان ایک قابلِ اعتبار ملک کے طور پر ابھرا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی مالی اصلاحات کی بنا پر ملکی مانیٹری پالیسی بہت بہتر ہوئی ہے اور اس بہتری کے نتیجے میں قومی ذخائر میں اضافہ ہوا ہے اور ساتھ ہی زیرگردش خسارے کو کم کرنے میں بھی مدد ملی ہے۔ وزیراعطم کی کوششوں اور نیب کی مسلسل محنت سے ماضی میں کی جانے والی بڑی کرپشنز کا پتہ لگایا گیا ہے اور کرپٹ افراد سے اب تک اربوں روپے وصول کیے جاچکے ہیں۔ اس کے علاوہ وزیراعظم کی ذاتی کوششوں سے محصولیاتی نظام میں بھی خاصی بہتری آئی ہے اور ملک بھر میں ٹیکس کا دائرہ وسیع ہوا ہے، جس سے محصولاتِ زر مین غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ یہ وزیراعطم عمران خان ہی کی شخصیت کا اعجاز ہے کہ آج ان کی شہرت ملک سے نکل کر بیرون ملک بھی پہنچ چکی ہے اور عالمی ایوان وزیراعطم عمران خان کی سچی باتوں سے گونج رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں جہاں بھی عالمی فورمز کے اجلاس ہوتے ہیں وہاں دنیا بھر کے دیگر رہنماؤں میں وزیراعظم عمران خان کی حیثیت ممتاز نظر آتی ہے اور دیگر ممالک کے سربراہان ان سے ملاقات کے خواہاں رہتے ہیں۔ وزیراعطم عمران خان کا سیاسی وژن اس قدر وسیع ہے کہ وہ آنے والی کئی دہائیوں تک کی معاشی، سیاسی اور صنعتی صورتحال کا ادراک رکھتے ہیں اور ملک کی حالت کو بہتر بنانے کا عزم لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ یقیناً آنے والا وقت نہ صرف عمران خان کو مزید سیاسی قوت عطا کرے گا بلکہ ان کے تدبر اور بہترین سیاسی بصیرت کی بدولت پاکستان کے حق میں بہت بہتر ہوگا اور پاکستان دنیا بھر میں بہترین پوزیشن کا حامل ہوگا۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔