قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری

کوئی چارہ نہیں دعا کے سوا
کوئی سنتا نہیں خدا کے سوا
مجھ سے کیا ہو سکا وفا کے سوا
مجھ کو ملتا بھی کیا سزا کے سوا

محمد راحیل وارثی


اس شہرۂ آفاق غزل کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری ہیں، قومی ترانہ اقوام عالم میں ہماری منفرد پہچان ہے۔ اس کی تخلیق کا سہرا حفیظ جالندھری کے سر بندھتا ہے، اس کی موسیقی احمد غلام علی چھاگلہ نے مرتب کی۔ آج حفیظ جالندھری صاحب کی برسی ہے۔ اس مناسبت سے خصوصی تحریر نذر قارئین ہے۔
حفیظ جالندھری ملک عزیز کے معروف ترین شعرا میں سے ایک تھے۔ حب الوطنی کا جذبہ آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ آپ کی ملک و قوم کے لیے خدمات کبھی بھلائی نہیں جاسکتیں۔
آپ 13 جنوری1900 کو جالندھر پنجاب (برطانوی ہند) میں پیدا ہوئے اور نام محمد عبدالحفیظ رکھا گیا۔ آپ کے والد شمس الدین حافظِ قرآن تھے۔


قیام پاکستان کے بعد آپ جالندھر سے لاہور آگئے۔ آپ کو ادب سے گہرا شغف تھا۔ آپ صحافت سے بھی وابستہ رہے۔ 1922 سے 1929 تک آپ کچھ مختلف رسالوں کے مدیر رہے۔ آپ کی نظموں کا پہلا مجموعہ ”نغمۂ زر“ 1935 میں شائع ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد آپ ”سونگ پبلسٹی ڈپارٹمنٹ“ میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ آپ نے ناصرف تحریک آزادیٔ پاکستان میں حصّہ لیا، بلکہ اپنی شاعری سے مسلمانانِ ہند کا خون بھرپور طریقے سے گرمایا۔
ابوالاثر حفیظ جالندھری کی لکھی نظم ”ابھی تو میں جوان ہوں“ جسے ملکہ پکھراج نے گایا تھا، مقبولیت کے تمام ریکارڈز توڑے، اِس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُس زمانے میں برصغیر کا ہر فرد اس نظم کا ابتدائی مصرع گنگناتا دِکھائی دیتا تھا۔

1948 میں ابوالاثر حفیظ جالندھری کشمیر کی آزادی کی افواج میں شامل ہوئے۔ آپ نے کشمیر کے لیے ترانہ بھی لکھا ”وطن ہمارا آزاد کشمیر۔“ پاک بھارت 1965 کی جنگ کے دوران آپ نے کچھ ملی نغمے بھی لکھے۔ پاکستان کی مسلح افواج میں آپ نے ڈائریکٹر جنرل Morals کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں۔ صدر ایوب خان کے مشیر ہونے کے ساتھ رائٹرز گلڈ آف پاکستان کے ڈائریکٹر بھی رہے۔
23 فروری 1949 کو حکومتِ پاکستان نے قومی ترانے کے لیے کمیٹی تشکیل دی۔723 افراد قومی ترانہ لکھنے کے مقابلے میں شامل تھے، ان میں سے حفیظ جالندھری کے لکھے گئے ترانے کو پاکستان کا قومی ترانہ منتخب کیا گیا۔ آپ کی شاعری کا محور رومانویت، مذہب، حب الوطنی اور قدرت رہے ہیں۔ آپ کی معروف کتابوں میں شاہ نامۂ اسلام، سوز و ساز، تلخابہ شیریں اور چراغ سحر شامل ہیں۔ 21 دسمبر 1982 کو لاہور میں آپ کا انتقال ہوا۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔