سب سے زیادہ گیس پیدا کرنے والا صوبہ گیس کی بندشوں کا شکار
سندھ میں حالیہ دنوں گیس کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے، منگل کو صوبے میں تمام سی این جی اسٹیشنز پر 176 گھنٹوں کے لیے گیس کی فراہمی پر پابندی لگائی گئی تھی ، جس کا اطلاق 22 جون کی رات 12 بجے سے شروع ہوا اور 29 جون کی صبح تک جاری رہے گا۔
سوئی سدرن گیس کمپنی نے سی این جی اسٹیشنز کے بعد اب صنعتوں کو بھی گیس کی فراہمی معطل کردی ہے اس کے ساتھ ہی گیس سے بجلی بنانے والی صنعتوں (کیپٹیو پاور یونٹس ) کو بھی گیس کی فراہمی پچاس فیصد کم کردی گئی ہے ۔ آل پاکستان پیٹرولیم اور سی این جی ایسوسی ایشنز کا کہنا ہے کہ یہ پابندی غیر معینہ مدت تک لگائی گئی ہے جو گیس انتظامیہ کی سب سے بڑی نااہلی ہے ۔
سوئی سدرن گیس کمپنی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کمپنی کو اس وقت گیس کے بحران کا سامنا ہے ، گیس فیلڈ سے تقریبا200 سے 250 ایم ایم سی ایف ڈی کم گیس مل رہی ہے کیوں کہ گیس کی سپلائی دینےوالی سندھ کے علاقے ٹنڈو الہیار کی ایک بڑی گیس فیلڈ کنزپساکھی ڈیب گیس فیلڈ کی سالانہ مرمت کے سبب21 روز کیلئے بند ہے ۔
ایس ایس جی سی کا کہنا ہے کہ گیس کم ملنے کے باوجود ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ صارفین کو کم سے کم تکلیف دی جائے اور جہاں جہاں گیس پہنچائی جاسکتی ہےوہاں گیس کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے کیونکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو گیس پہنچانے کی ذمہ داری سوئی سدرن گیس کمپنی کی ہے لیکن موجودہ گیس کے بحران کی وجہ سے گھریلو صارفین کو گیس پہنچانے میں کافی پریشانیوں کا سامنا ہے۔
سوئی سدرن گیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے واضح کی گئی گیس لوڈ منیجمنٹ سپلائی پالیسی کے تحت گھریلو صارفین کو گیس پہنچانا پہلی ترجیح ہے اور گھریلو صارفین کو گیس پہنچانے کے حوالےسے نان ایکسپورٹ انڈسٹری کو100 فیصد گیس کی فراہمی ختم کردی گئی ہے جبکہ کیپٹو پاور کی گیس سپلائی میں بھی 50 فیصد تک کمی کی گئی ہے ۔۔
اس سلسلے میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو پیشگی اطلاع دی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ ان کی تمام اسٹیک ہولڈرز سے یہ اپیل ہے کہ کمپنی سےمکمل تعاون کریں اور اس کا ساتھ دیں ۔۔
صوبہ سندھ پاکستان میں سب سے زیادہ گیس پیدا کرنے والا صوبہ ہے، جو ملک کی مجموعی گیس پیداوار کا 70 فیصد پیدا کرتا ہے جبکہ صوبے میں صرف 45 فیصد گیس ہی استعمال ہوتی ہے۔ اس کے باوجود سندھ کو قدرتی گیس اور سی این جی کی شدید قلت کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے صنعتی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد، ٹرانسپورٹرز اور دیگر کمرشل و گھریلو صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سردیاں ہوں یا گرمیاں سندھ میں گیس کی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں بجلی کی طرح اب گیس کی بندش بھی معمول بنی ہوئی ہے ۔ چھوٹےچھوٹے دیہات میں تو پورا پورا دن لوگ بجلی اور گیس دونوں سے محروم رہتے ہیں اور خواتین لکڑیوں پر ہی کھانا بنانے پر مجبور ہوتی ہیں ۔سردیوں میں یہ سلسلہ مزید بڑھ جاتاہے ، گرمیوں میں جو تھوڑی بہت گیس آتی ہے سردیوں میں لوگ اس سے بھی محروم ہوجاتے ہیں ۔
سندھ بھر میں گیس کی لوڈشیڈنگ سے نہ صرف گھریلو صارفین کے لئے پریشانی کا باعث ہے بلکہ گیس کی لوڈشیڈنگ سے سی این جی اسٹیشنز کو گیس کی فراہمی معطل ہونے سے نہ صرف عام شہری پریشان ہوتا ہے بلکہ سندھ بھر میں چلنےوالی ٹرانسپورٹ بری طرح متاثر ہوتی ہے ۔
گیس کی بندش سے سب سے زیادہ نقصان سندھ کے کاروباری افراد کا ہوتا ہے ۔۔سندھ کے چھوٹے چھوٹے شہروں میں جہاں کاروبار پہلے ہی کووڈ اور دیگر وجوہات کی وجہ سے ٹھپ ہیں وہیں گیس کی عدم فراہمی کی وجہ سے کئی کارخانے اور گیس پر چلنے والی فیکٹریاں اور کاروبار بری طرح سےمتاثر ہورہے ہیں ۔
سندھ میں گیس کی بندش پر وزیراعلیٰ سندھ نے بھی دو ہزار بیس میں وزیراعظم عمران خان کو ایک خط بھی لکھا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سندھ ملک کا سب سے گیس پیدا کرنے والا صوبہ ہے اس کے باوجود اس صوبے کو گیس کی فراہمی بند کرکے صنعتکاروں کے ساتھ ساتھ گھریلو صارفین کو بھی پریشان کیا جارہاہے ۔ انہوں نے اپنے خط میں مزید کہا کہ سب سے پہلے سندھ سے پیدا ہونے والی گیس سے صوبہ سندھ کی ضروریات پوری کی جائیں ، سندھ کو گیس سے محروم کرنا آئین کے آرٹیکل 158 کی خلاف ورزی ہے ۔
سندھ کے وزیراعلیٰ کے خط اور صنعتکاروں اور گھریلوں صارفین کے مسلسل احتجاج کے باوجود سندھ کو آج بھی گیس کی بندش کا سامنا ہےاورآئے روز کسی نہ کسی بہانے سے سوئی سدرن گیس کی جانب سے بندش کا اعلان کیا جاتا ہے اورکچھ پتہ نہیں کہ گیس کی یہ بندش کب ختم ہوگی ۔۔