قربانی ضرور کیجیے مگر
عیدالاضحیٰ میں ابھی دو روز باقی ہیں۔ کورونا وبا کے باعث اس بار محض 60 ہزار وہ افراد ہی حج کی سعادت حاصل کررہے ہیں جو سعودی عرب کے شہری ہیں یا سرزمین حجاز میں مقیم ہیں۔ بقرعید کے موقع پر لاکھوں مسلمان قربانی کا فریضہ سرانجام دیں گے۔
لوگوں کی بڑی تعداد اس وقت ملک کے تمام شہروں میں قائم مویشی منڈیوں کا رخ کررہی ہے اور جو صاحب حیثیت ہیں، وہ قربانی کی نیت سے مویشی خرید کر لارہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں جو ہر روز باقاعدگی سے مویشی منڈی جاتے اور گھوم پھر کر واپس آکر لمبی تان کے سوجاتے ہیں۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے۔ ایک طرح سے عیدالاضحیٰ بہت سے لوگوں کے لیے آمدن کے حوالے سے اچھا موقع ہوتا ہے۔ اس موقع پر اربوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔ بہت سے لوگوں کو روزگار میسر آتا ہے اور اُن کی اچھی خاصی آمدن ہوجاتی ہے۔ ان میں مویشیوں کے بیوپاری، جانوروں کا چارہ فروخت کرنے والے، مویشی منڈیوں سے گاڑیوں پر گھروں تک جانوروں کو پہنچانے والے، اصل اور نقل (وہ اناڑی جو محض عیدالاضحیٰ پر قربانی کے جانور حلال کرتے ہیں) قصاب، جانوروں کی چربی اور کھالیں خریدنے اور فروخت کرنے والے، مشین پر قیمہ بنانے والے، گوشت بنانے والے وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں، جو مسلسل بے روزگاری سے تنگ آئے ہوئے ہوتے ہیں، اُن کے لیے یہ موقع یقیناً غنیمت ہوتا ہے، جس سے وہ بھرپور مستفید ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
سبحان اللہ، رب العزت نے بقرعید میں ہم مسلمانوں کے لیے کتنے فوائد رکھے ہیں۔ جہاں بہت سے لوگوں کو روزگار میسر آتا ہے، وہیں جو قلیل آمدن کے باعث کافی عرصے تک گوشت کھانے سے محروم ہوتے ہیں، اُنہیں یہ نعمت وافر میسر آجاتی ہے۔ بہت سے ایسے بھی کھاتے پیتے گھرانے دیکھنے میں آئے ہیں، جو ہوس میں اپنے ڈیپ فریزراور فریج قربانی کے گوشت سے بھر لیتے اور مہینوں کھاتے رہتے ہیں۔ ہوس کسی بھی چیز کی ہو، اسے کسی طور مناسب نہیں گردانا جاسکتا۔ قربانی کے گوشت کی تقسیم کے موقع پر غریبوں کو اوّلیت دینی چاہیے۔ اس میں شبہ نہیں کہ عیدالاضحیٰ سے قبل ملک بھر میں ماحول یکسر بدل جاتا ہے۔ ہر گلی، محلے میں مویشیوں کی جیسے بہار آئی ہوئی ہوتی ہے۔ لوگ قربانی کے لیے لائے گئے جانوروں کو چہل قدمی کے لیے تواتر کے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ خصوصاً بچوں اور ٹین ایجرز کے لیے یہ ایام دل چسپی سے خالی نہیں ہوتے۔ وہ ان لمحات کو خوب انجوائے کرتے ہیں۔ مختلف جگہوں، محلوں میں جہاں اُنہیں اطلاع ملتی ہے کہ خوبصورت اور بھاری بھر کم جانور آئے ہوئے ہیں، وہ وہاں دیوانہ وار اُنہیں دیکھنے جاتے ہیں۔ یہ سب تو اپنی جگہ ٹھیک، لیکن اس موقع پر جو گلی، محلوں، سڑکوں اور دیگر مقامات پر جانوروں کے فضلے کے ڈھیر نظر آتے ہیں، وہ ناصرف تعفن کو بڑھاتے، ماحول کو آلودہ کرتے، بلکہ امراض کے پھیلاؤ کا باعث بھی بنتے ہیں۔
لوگ اپنے گھروں کو تو صاف ستھرا رکھتے ہیں، لیکن قربانی کے لیے لائے گئے جانوروں کے فضلے کے معاملے میں گندگی کی انتہا کردیتے ہیں، قربانی کے جانوروں کا تو ہر طرح سے خیال رکھا جاتا ہے، لیکن فضلہ وہیں گلی محلے میں پڑا رہتا ہے، اُسے کچرے خانے میں پھینک کر آنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ اس طرح ناصرف خود بھی متاثر ہوتے، بلکہ دیگر افراد کو بھی بیماریوں میں مبتلا کرنے کی وجہ بنتے ہیں۔ ہمارا ملک پہلے ہی بدترین آلودگی کی لپیٹ میں ہے۔ ہمارے شہروں کا شمار دُنیا کے آلودہ ترین بلاد میں ہوتا ہے۔ آئے روز اس حوالے سے عالمی سروے رپورٹس سامنے آتی رہتی ہیں، جن میں ہمارے مختلف شہروں کو آلودگی میں سرفہرست قرار دیا جاتا رہتا ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کا عفریت روز بروز سنگین شکل اختیار کرتا چلا جارہا ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں ذرا بھی گندگی برداشت نہیں کرتے، اسی طرح یہ ملک، شہر، علاقے، محلے، گلیاں، سڑکیں بھی ہمارا گھر ہی ہیں اور ان کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا ہماری ذمے داری ہے۔ اس تناظر میں شہریوں سے بصد احترام گزارش ہے کہ قربانی ضرور کیجیے مگر قربانی کے مقصد کے لیے لائے گئے مویشی کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنے کے ساتھ اُس کے فضلے کو بھی ٹھیک طرح سے ٹھکانے لگائیے، شاپر میں اُسے ڈال کر اُس کا منہ بند کرکے اسے کچرا کنڈیوں میں ڈالیے، تاکہ وہ تعفن اور آلودگی کا باعث نہ بن سکے۔ اس کے ساتھ پورے ملک کے شہروں کی انتظامیہ کو بھی اس موقع پر مستعد کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کہ عیدِ قرباں کے بعد کئی دنوں تک ہمارے بعض شہروں کے اکثر مقامات جانوروں کی آلائشوں کے پڑے رہنے کے باعث تعفن اور گندگی سے اٹے رہتے ہیں۔ انہیں ٹھکانے لگانے کے معاملے میں تساہل سے کام لیا جاتا ہے۔ یہ امر امراض کے پھیلنے اور لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لینے کے ساتھ ماحول کے لیے سم قاتل ثابت ہوتا ہے۔ پچھلے برسوں میں یہاں تک دیکھنے میں آیا کہ جانوروں کی آلائشیں قربانی کے بعد جہاں پڑی تھیں، وہ وہاں یا کچرا کنڈیوں میں پڑی سڑتی رہیں اور آخرکار وقت گزرنے کے ساتھ خود ہی ختم ہوگئیں، لیکن اس دوران وہ ماحول کو بھرپور گزند پہنچاچکی تھیں۔ اس تناظر میں کیا ہی اچھا ہو کہ جانوروں کی آلائشوں کو قربانی کے فوری بعد ٹھکانے لگانے کے لیے ملک کے طول و عرض میں راست انتظامات یقینی بنائے جائیں، اس معاملے میں غفلت کا ہرگز مظاہرہ نہ کیا جائے، یہ امر ماحول کو انسان دوست بنانے میں ممدومعاون ثابت ہوسکتا ہے۔