دلیپ کمار، کچھ یادیں کچھ باتیں
دلیپ کمار برصغیر کی فلمی صنعت کا سب سے بڑا نام ہے۔ یہ وہ ستارہ ہے جس نے بالی ووڈ کو وہ روشنی دی کہ جس نے بالی ووڈ کے مستقبل کو محفوظ بنادیا تھا۔ آج یہ ستارہ بھی ٹوٹ گیا ہے۔ آج ان کی موت نے دنیا بھر میں ان کے مداحوں کو افسردہ کردیا ہے۔
دوستو یہ جدائی ہی کچھ ایسی کہ مجھ سے ابھی کچھ نہیں لکھا جارہا۔ اور نا ہی کسی سے میں اپنی اس خراب حالت میں بات کرپا رہا ہوں۔ فی الحال میری زبان گنگ ہے۔ میں رات دادا کے ساتھ اسپتال رہا ہوں۔ صبح گھر آکر آنکھیں بند کیں، مگر شدید سر درد نے زیادہ سونے نہیں دیا۔ میرا موبائل سائلنٹ موڈ پر تھا۔ اسی دوران برصغیر کے فنکارِ اعظم یعنی دلیپ کمار صاحب کے انتقال کی خبر بھی میڈیا پر آئی اور پھر میرے موبائل پر دوست احباب کی جانب سے تعزیتی کالز اور پیغامات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ میں ابھی اس خبر کے صدمے سے سنبھل نہیں پایا ہوں، سنبھلتے ہی آپ سے کچھ دل ہلکا کرپاؤں گا۔ جسے زندگی میں سب سے زیادہ چاہتا رہا ہوں اسکی جدائی کو قبول کرنے میں مجھے کچھ وقت لگے گا۔ یا پھر شاید میں ناکام ہوجاؤں کیونکہ میرا نہیں خیال کہ دلیپ صاحب کبھی مجھ سے جدا ہوسکتے ہیں۔۔
جب کبھی دلیپ کمار صاحب بیمار ہوکر اسپتال پہنچے تو ان کی اہلیہ اور ماضی کی بڑی اداکارہ سائرہ بانو کا حوصلہ مثالی رہا۔ اس دوران ان سے جب بھی بات ہوئی وہ پرامید دکھائی دیتیں اور الٹا مجھے حوصلہ دیتی رہیں کہ آپ دعا کریں وہ جلد ٹھیک ہوں گے۔ ہر بار ان کی بیماری کے ساتھ ان کی موت کی افواہ بھی گردش کرنے لگ جاتی۔ گھامڑ لوگ ایک بار بھی گوگل سے تصدیق کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ بہرحال ماسوائے ایک بار کے میں نے کبھی اس فواہ پر یقین نہیں کیا۔ اور اس ایک بار میں، میں اپنے محبوب اداکار کی جدائی کی تکلیف سہہ چکا تھا جسے میں نے زندگی میں سب سے زیادہ چاہا ہے۔
یہ 2015 کے اوائل کی بات تھی وہ بیمار ہوکر اسپتال پہنچے اور میں ایک ڈاکومنٹری فلم کی شوٹ پر تھا، جب مجھے یہ خبر ملی۔ تب میں پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا۔ وہ تو بھلا ہو ایک دوست کا جس نے جیسے تیسے نیٹ تک رسائی کی اور امیتابھ بچن کی ٹویٹ دکھائی کہ وہ ابھی زندہ ہیں۔ تب سے اب تک ہر بار جب بھی وہ بیمار ہوکر اسپتال پہنچے مجھے سوشل میڈیا پر ان کے موت کی خبر دکھائی دینے لگتی ہے کچھ دوست بھی اس افواہ کا شکار ہوکر مجھے ان کی موت کی خبر بھیج دیتے ہیں مگر میں اب کبھی یقین نہیں کرتا۔
پہلے تو میں گوگل سے خبروں کو دیکھتا رہتا ہوں یا پھر دلیپ کمار کے کچھ قریبی عزیزوں سے رابطے میں رہتا ہوں اور اگر پھر بھی تسلی نہ ہو تو ڈائریکٹ سائرہ بانو سے رابطہ کرکے ان کی خیریت دریافت کرلیتا تھا اور وہ "سب بہتر ہے، بس آپ دعائیں کریں، سب ٹھیک ہوجائے گا” کہہ کر حوصلہ بڑھا دیتی تھیں۔ صرف ایک بار ایسا ہوا جب میں نے سائرہ بانو کو اتنا ٹوٹا ہوا پایا کہ مجھے انہیں حوصلہ دینا پڑا۔ یہ 2015 کے اوئل ہی کی بات ہے جب دلیپ صاحب کی موت کی افواہ تیزی سے پھیلی۔ امیتابھ بچن کی ٹویٹ سے یہ تو کنفرم ہوگیا تھا کہ وہ ایسا نہیں ہوا، مگر مجھ سے رہا نہیں گیا۔ میں نے سائرہ بانو کو کال ملائی۔ وہ ایک دم چپ تھیں فقط اتنا کہہ سکیں کہ میں دلیپ صاحب کے ساتھ آئی سی یو میں ہوں وہ ٹھیک نہیں ہیں۔ ان کی آواز میں گھبراہٹ تھی۔ تب میں انہیں حوصلہ دینے لگا کہ ہر بار وہ ٹھیک ہوکر گھر ائے ہیں اس بار بھی آجائیں گے انہیں کچھ نہیں ہوگا۔
چونکہ ہر سال ہم پشاور میں دلیپ صاحب کی سالگرہ مناتے ہیں اور ایک بار وہ اپنی سالگرہ کے دن اسپتال سے ڈسچارج ہورہے تھے میں نے سائرہ بانو کو سالگرہ کے انتظامات کی تصویریں بھیجیں تو انہوں سے سادگی سے سالگرہ منانے کی درخواست کی کہ وہ خود بھی اج اپنے گھر پر سادگی سے سالگرہ منائیں گے۔ تب سائرہ بانو اسپتال سے گھر واپس جارہی تھیں۔ نجانے ان کے دل میں کیا آیا کہ انہوں نے خود ہی کہا کہ یہ لیں صاحب سے بات کرلیں۔ وہ اب ٹھیک ہیں۔ مجھے یقین ہی نہ ہوا اور میں ہکلاتے ہکلاتے فقط اتنا کہہ سکا آئی لو یو صاحب آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔ میں نے سائرہ بانو کا شکریہ ادا کیا تو وہ کہنے لگیں کہ صاحب آپ کو سن کر مسکرائے ہیں۔ دلیپ کمار صاحب سے ملنے کے بعد یہ دوسرا موقع تھا جب میں نے خود کو اتنا خوش قسمت پایا تھا۔
میں جب دلیپ صاحب سے ملا تو میں نے سائرہ بانو سے ان کا ہاتھ چومنے کی فرمائش کی تو انہوں نے کہا، "Hwo sweet!، کیوں نہیں۔” میں نے اپنے محبوب کے ہاتھ چومے تو سائرہ بانوکہنے لگی اپ بس دعا کریں کہ صاحب سو سال جیئیں۔ تب دلیپ صاحب 92 سال کے تھے۔ نجانے کیسے تب میں نے جھٹ سے کہا کہ سو سال کیوں جیئیں۔ صاحب تو سو سال سے بھی زیادہ جیئیں گے۔ تب سائرہ بانو مسکرائیں کہ ہاں اپ کی دعاؤں سے ضرور زیادہ جیئیں گے۔
کچھ دن پہلے دلیپ صاحب سانس کی تکلیف کی وجہ سے اسپتال میں داخل رہے اور ٹھیک ہوکر گھر واپس آئے لیکن آج ایک بار پھر وہ سانس کی تکلیف کے باعث اسپتال داخل کیے گئے۔ اس بار انہیں ائی سی یو منتقل کردیا گیا۔ ایک طرف میرے دادا فالج اٹیک کے بعد کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے جنہیں میں بہت چاھتا ہوں۔ اور دوسری طرف میرے محبوب اداکار آئی سی یو پہنچے تھے، جہاں سے اب ان کے کوچ کی خبر ائٓی ہے۔ دل ہے کہ غم سے پھٹا جا رہا ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ پہلے ہی اتنے اپنوں کی اموات کا دکھ دل میں لیے مزید کسی بڑے دکھ کا سامنا کیسے کرپاؤں گا۔ اس وقت تو میں فقط اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اے خدا! چاہے میری دعا رد کر دیتا کہ وہ سو سال سے بھی زیادہ جیئیں مگر ان کی ہم سفر سائرہ بانو کی دعا تو قبول کرلیتا کہ کم سے کم سو سال یعنی فقط دو سال مزید وہ جی سکتے۔۔