اسرائیلی لابی، ہماری سوچ اور ہم

فیس بک اور واٹس اپ کے ذریعے کئی دوستوں نے تنبیہ کی کہ آپ نے "Jerusalem Prayer Team”  نامی پیج کو فالو کیا ہے، حالانکہ یہ اسرائیل کا پیج ہے۔ چونکہ اسرائیلی لابی اس پیج کو اپنے پروپیگنڈا کے لیے استعمال کر رہے ہیں لہٰذا میں اس کو ان فالو کر دوں۔ کچھ احباب یہ شکایت بھی کر رہے ہیں کہ انہوں نے پیج خود فالو نہیں کیا تھا بلکہ یہ فیس بک کا اپنا کیا دھرا ہے۔

انفرادی طور پر کئی دوستوں کو سمجھانے کے باوجود پیغامات کا سلسلہ تھم نہیں رہا۔ اب یہ باقاعدہ ایک تحریک بن چکی ہے۔ ایک تحریر جس میں متعلقہ پیج سے دور رہنے کی تاکید کی گئی ہے، دھڑا دھڑ شئیر ہورہی ہے۔ چونکہ سلسلہ بدستور جاری ہے، مینشن اور ٹیگ ہونے کے نئے نوٹیفیکشنز آرہے ہیں، اس لیے غلط فہمیاں دور کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔

بات دراصل یہ ہے کہ مجھے خوب پتا ہے کہ یہ پیج اسرائیل کا ہے اور یہ بھی یاد ہے کہ پیج فیس بک نے اپنی طرف سے لائک نہیں کروایا تھا بلکہ تقریباً دو سال پہلے میں نے خود ہی اسے لائک کیا تھا۔ لائک کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اسرائیل کے پروپیگنڈے کے بارے میں جان سکوں اور جب کبھی ممکن ہو، ان کے جھوٹے پروپیگنڈے کو غلط ثابت کر سکوں۔

آپ لوگوں کو پتا ہوگا کہ پوری دنیا اور خاص طور پر امریکہ میں اسرائیل سب سے بڑا لوبیئیسٹ/ پروپیگنڈسٹ ہے۔ یاد رہے کہ 1946ء سے 2020ء تک امریکہ نے اسرائیل کو 146,245.109 ملین ڈالرز سے بھی زیادہ مالی امداد فراہم کی ہے۔ اسی پروپیگنڈے کے بل بوتے پر اس کو امریکہ اور دوسرے ممالک کی مالی اور سفارتی حمایت حاصل ہے۔ امریکہ میں اسرائیل نے عوام اور خواص کی رائے اس قدر اپنے حق میں کرالی ہے کہ وہاں اسرائیل کے حوالے سے امریکہ کی خارجہ پالیسی پر نظرثانی اور یا اسرائیل کے کرتوت پر تنقید کرنا خود اپنے پاوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ وہاں کے سیاستدان اپنی سیاسی مہم میں اسرائیل کی حمایت کی یقین دہانی کرا کے اپنے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔ اگر کوئی اسرائیل پر تنقید کرتا ہے تو وہ بازی ہار جاتا ہے کیوں کہ اس کو ہٹلر ( nazism ) کا پیرو اور یہود کا مخالف اور قاتل ( anti-semitie ) قرار دے کر برطرف کردیا جاتا ہے۔

ان فتووں سے سابقہ امریکی صدر جمی کارٹر بھی اس لیے بچ نہ سکا کہ اس نے اپنی کتاب "Palestine: Peace not Apartheid ” میں فلسطینیوں کی پرامن اور محفوظ زندگی جینے کا حق تسلیم کیا تھا اور ساتھ ساتھ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی پالیسیوں کو جنوبی افریقہ میں سرکاری طور پر رائج سابق ظالمانہ پالیسی "Apartheid” سے تشبیہ دی تھی۔ یہ بھی بتایا تھا کہ اسرائیل کے لیے پروپیگنڈا کرنے والے انٹرسٹ گروپس کی وجہ سے امریکی رہنما امن قائم کرنے کے حوالے سے اسرائیل پر دباؤ نہیں ڈال پا رہے۔

ایران کے ساتھ امریکہ کے برے تعلقات، عراق پر امریکہ کے نا حق حملے، شام، لبنان اور یا دوسرے ممالک کے ساتھ امریکہ کی خارجہ پالیسی وضع کرنے کے سلسلے میں بھی اسرائیلی لابی کا بہت بڑا کردار ہے۔

ہم جس دور میں جی رہے ہیں، اس میں پروپیگنڈا ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ کوئی بھی ملک خود کفیل نہیں ہے اور ہر ملک بہت سارے حوالوں سے دوسرے ممالک کی امداد پر انحصار کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالتِ امن میں بالعموم اور حالتِ جنگ میں بالخصوص اگر ایک ملک دنیا کو اپنے حق بجانب ہونے کی یقین دہانی نہ کراسکے تو وہ پوری دنیا سے الگ تھلگ ہوجاتا ہے۔ طرح طرح کی پابندیاں لگ جانے کی وجہ سے اس کی بقا اور سالمیت انتہائی خطرے میں پڑجاتی ہے۔

ہماری بدنصیبی اور نااہلی ہے کہ تشہیر اور پروپیگنڈے کے اکثر بڑے ذرائع غیر مسلموں کے ہاتھ میں ہیں۔ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک، مین اسٹریم میڈیا ہو یا سوشل میڈیا، سرچ انجنز ہوں یا نامی گرامی ویب سائٹس، بین الاقوامی معیار کی کتب لکھنا ہو یا تحقیقی مقالے، ہر جگہ غیر مسلم نہ صرف چھائے ہوئے ہیں بلکہ مظلوم فلسطینیوں کے بجائے اسرائیلی جارحیت کا بھرپور دفاع کرکے اسرائیل ہی کو مظلوم ثابت کر رہے ہیں۔

اس گھمبیر صورت حال میں ہمارا کردار افسوس ناک ہے۔ پاکستان کی اگر بات کی جائے تو ہمارے پاس بین الاقوامی سطح پر پروپیگنڈا کے لیے اپنے ذاتی ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جو چند ایک ذرائع ہیں، ان کے ذریعے ہمیں آپس میں ایک دوسرے کے خلاف الزامات سے فرصت نہیں ملتی۔ اردو میں کیے جانے والا پروپیگنڈا گرد و پیش کے تین چار ممالک سے زیادہ دور تک پرواز نہیں کرسکتا اور انگریزی میں کیے جانے والے انتہائی محدود پروپیگنڈا کا معیار اتنا اچھا ہوتا نہیں ہے کہ دنیا کی توجہ حاصل کرسکے۔ باقی مسلم دنیا کی اگر بات کی جائے تو صرف ”الجزیرہ” اور ”العربیہ” ہی عالمی سطح پر مقابلے کی سکت رکھتے ہیں۔

خیر تو بات ہورہی تھی فیس بک اور اسرائیلی لابی کی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ فیس بک نے اپنی طرف سے مذکورہ پیج لائک کروایا ہوگا البتہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس پیج کے فالورز بڑھانے کے لیے فیس بک بہت زیادہ تشہیر کرتا آیا ہے۔ لوگوں نے انجانے میں ”یروشلم” اور ”دعا” کے الفاظ دیکھ کر اور یا میری طرح ارادتاً یہ پیج لائک کیا ہوگا۔ بالفرض کسی کا خودبخود لائک ہوگیا ہے تو بطور رد عمل پیج کو ڈس لائک کرنا بالکل مسںٔلے کا حل نہیں ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ پیج خود بخود کیوں لائک ہوگیا اور اس سے کس قسم کے مواد کی تشہیر ہوتی ہے۔

اس پیج کے چھہتر ملین سے زیادہ فالورز ہیں اور پاکستانیوں یا باقی مسلم دنیا کی تعداد ان میں بہت ہی کم ہے۔ آپ پیج کو ڈس لائک کر کے پیج پر شائع ہونے والے پروپیگنڈے سے بے خبر رہ کر اسرائیل کو نقصان نہیں پہنچا رہے بلکہ اس کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ جیسے ہی اس پیج سے اسرائیل کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے جھوٹی اور بے بنیاد باتیں پھیلائی جاتی ہیں تو مسلمان فالورز کومنٹس اور ریکشنز کی شکل میں ان کے پروپیگنڈے کی اصلیت دکھا کر پوری دنیا کو اسرائیل کا مکروہ چہرہ دکھا دیتے ہیں لیکن اگر یہ چند ہزار فالورز ایسا نہ کریں اور پیج سے لاتعلق ہوجائیں تو پیج کے بانی جو کچھ چاہیں گے، پوری دنیا میں پھیلاتے جائیں گے اور مسلمانوں کی طرف سے کوئی ان کو جواب دینے کے لیے موجود نہیں ہوگا۔

انہی چند ناقدین کی وجہ سے باقی دنیا بھی اسرائیل کی ” بغل میں چھری، منہ میں رام رام ” والی اصلیت جان چکی ہے۔ اس کا واضح ثبوت پیج سے شائع ہونے والی ایک حالیہ پوسٹ ہے جس میں اسرائیل پر دو ہزار میزائل فائر ہونے کا دعویٰ کرکے اسرائیل کو مظلوم ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے اور ساتھ میں ایک لنک کے ذریعے اسرائیل کی مالی مدد کے لیے درخواست بھی کی گئی ہے۔ اگر اس پوسٹ پر آنے والے ری ایکشنز کا جائزہ لیا جائے تو اکثر ری ایکشنز ہنسی کے ہیں۔ لوگوں کو پتا چل چکا ہے کہ مالی امداد بٹورنے کے لیے اسرائیل کس قدر مکاری سے مظلومیت کا رونا رو کر باقی اقوام کو جذباتی طور پر بلیک میل کر رہا ہے۔

پیجز سے لاتعلقی بالکل حل نہیں ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ سب سے پہلے اسرائیلی لابی کو سمجھنے کے لیے کچھ کتب مثلاً سٹیفن والٹ اور جان جے۔ میئرشیمر کی کتاب "The Israel Lobby and US Foreign Policy” یا جے۔ جے گولڈبرگ کی کتاب "Jewish Power: Inside the American Jewish Establishment ” کا مطالعہ کرلیں۔ لابی کا طریقہ واردات سمجھنے کے بعد اسرائیل کے مختلف پیجز اور چینلز کا روزانہ کی بنیاد پر وزٹ کر لیا کریں اور وہاں موجود جھوٹے پروپیگنڈے کو غلط ثابت کرنے کے لیے متعلقہ ثبوت پیش کردیا کریں۔ اس ایک پیج کے ذریعے آپ اپنا پیغام ایک ہی جست میں چھہتر ملین لوگوں تک پہنچا کر اسرائیل کو اسی کے ہتھیار سے مات دے سکتے تھے لیکن گزشتہ کچھ دنوں میں بغیر سوچے سمجھے اس پیج کو ڈس لائک کرنے کی تبلیغ کا نتیجہ یہ نکلا کہ فیس بک نے اس پیج کو یا تو پاکستان میں بین کردیا ہے اور یا مجھ سمیت میرے کئی دوستوں کو بلاک کردیا ہے کیوں کہ کئی اکاونٹس سے کوشش کرنے کے باجود پیج نہیں مل رہا۔ اگر پیج وقتی طور پر پوری دنیا میں پردے سے ہٹا دیا گیا ہے تو بھی خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ بہت جلد اس کو ایک نئے اور زیادہ موثر انداز میں لاونچ کر دیا جائے گا۔ یہی نقصان ہوتا بے جا جذباتی ہونے کا!

پروپیگنڈے کی اہمیت، ضرورت اور طریقۂ کار کو سمجھیں اور جذباتی ہونے کے بجائے سوچ سمجھ کر اپنا پیغام لوگوں تک پہنچائیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے اس طرح احتجاج کے نتیجے میں غیر مسلم آپ پر مظالم ڈھانے سے باز آجائیں گے تو یہ آپ کی غلط فہمی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔