اور کتنی زینب بھینٹ چڑھیں گی؟
بچے معصوم ہوتے ہیں۔ یہ شفقت اور محبت کے خواستگار ہوتے ہیں۔ انہیں پھولوں سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ اپنے ہوں یا پرائے، یہ ہر دو صورتوں میں ہی بھلے لگتے ہیں۔ ان کی باتوں، معصومیت، شرارت، کھیل کود میں اس دُنیا کی حقیقی رعنائیاں پنہاں ہوتی ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا سماج اب ان کے لیے کسی طور موافق نہیں رہا، کیونکہ یہاں معصوم پھولوں کو مسلنے کی بدترین رِیت ڈال دی گئی ہے۔ وہ وہ دردناک واقعات سامنے آرہے ہیں کہ جن کو سن، پڑھ کر ہر آنکھ اشک بار ہوجاتی ہے۔
لگ بھگ تین برس قبل قصور میں آٹھ سال کی معصوم زینب کا زیادتی کے بعد بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا۔ اُس کا قاتل گرفتار بھی ہوا اور سزا بھی دی گئی۔ اس کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ آئندہ کوئی اور معصوم بچہ یا بچی درندگی کے کسی ایسے واقعے کی بھینٹ نہیں چڑھے گی، لیکن یہ محض خام خیالی تھی، اس کے بعد بھی تواتر کے ساتھ ایسے واقعات سامنے آتے رہے اور اب تو ان میں ہولناک اضافہ ہوگیا ہے۔ روزانہ ہی اس ضمن میں دل خراش خبریں سامنے آرہی ہیں۔ گزشتہ روز کی اخباری اطلاعات کے مطابق صوبہ خیبر پختون خوا کے علاقے چارسدہ میں ایک اور زینب درندگی کی بھینٹ چڑھ گئی۔ ڈھائی سالہ معصوم زینب کا زیادتی کے بعد بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ ڈاکٹروں نے بچی کے ساتھ زیادتی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ بچی کو بے رحمانہ طریقے سے قتل کیا گیا، اس کے جسم پر تشدد کے نشانات بھی پائے گئے ہیں جب کہ لاش پر کسی جانور کے پنجے کا بھی نشان ہے۔ پولیس کے مطابق بچی کو 6 اکتوبر کو اغوا کیا گیا، جس کی لاش اگلے روز کھیتوں سے ملی۔ اسی روز خانپور میں اغوا ہونے والے 12 سالہ بچے کی لاش کھیتوں سے برآمد ہوئی۔ پولیس کے مطابق بچے کو مبینہ طور پر زیادتی کے بعد گلادبا کر قتل کیا گیا اور لاش کھیتوں میں پھینک دی گئی۔ سندھ کے ضلع دادو میں 10 سالہ لڑکی کو مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ ادھر اسلام آباد کے تھانہ ترنول کے علاقہ ڈھوک رمضان میں گھر سے ملحقہ زچہ بچہ کلینک چلانے والی 30 سالہ نرس سے خنجر کی نوک پر اوباش شخص عامر نے زیادتی کر ڈالی۔ چارسدہ میں پولیس نے زینب قتل کیس کے ملزم کو گرفتار کرلیا۔ ملزم کا تعلق زینب کے محلے سے ہی ہے۔ ملزم کی نشان دہی پر پولیس نے آلہ قتل اور بچی کی ایک جوتی برآمد کرلی ہے۔
ملزم کی عمر 45 سے 50 سال کے درمیان ہے اور اس نے پولیس کے سامنے اقرار جرم کر لیا ہے۔ اعلیٰ پولیس حکام عنقریب ملزم کے حوالے سے پریس کانفرنس کرکے تفصیلات بتائیں گے۔
ان واقعات کو پڑھنے کے بعد دل خون کے آنسو رورہا ہے۔ ایسے میں سوالات جنم لیتے ہیں کہ ہم جس سماج میں جی رہے ہیں، کیا یہ انسانی معاشرہ کہلانے کا حق دار ہے؟ آخر اور کتنی زینب درندگی کی بھینٹ چڑھیں گی؟ معصوم بچے بچیاں محفوظ ہیں نہ عورتیں۔ شقی القلب اور درندہ صفت لوگ ہمارے معاشرے میں جابجا موجود ہیں۔ کوئی ان کا راستہ روکنے والا نہیں۔ یہ اپنی ہوس کی بھینٹ معصوموں اور کمزوروں کو تواتر کے ساتھ چڑھاتے نظر آتے ہیں۔ یہ ہر سو دندناتے پھرتے، بچے اور بچیوں سے زیادتی کرکے اُن سے اُن کا حق زندگی چھین لیتے ہیں، عصمتیں تار تار کرتے اور قانون کی گرفت میں بھی نہیں آپاتے۔ موٹروے زیادتی کیس کا مرکزی ملزم عابد ملہی آج تک گرفتار نہ ہوسکا۔ کیا یہ پولیس کی ناکامی نہیں ہے۔ ابتدا میں تو اس واقعے پر خوب شور مچا، ملزم کی گرفتاری کے ہر سو مطالبات کیے جاتے رہے، سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے خاصی آوازیں بلند ہوئیں، لیکن لگتا ہے کہ اب وقت کی گرد اِس پر بھی پڑنے لگی ہے اور اب اس ضمن میں پچھلے کئی روز سے کوئی اطلاع بھی میڈیا کی زینت نہیں بنی۔ لاہور اور پنجاب پولیس کی ’’آنیاں جانیاں‘‘ بھی اس حوالے سے دکھائی نہیں دیتیں۔ سی سی پی او لاہور کی زبان بھی خاموش ہے۔ ویسے اُن کی جانب سے اس معاملے میں زبانی کلامی دعووں اور کے علاوہ اور کچھ کیا بھی نہیں جاسکا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس سانحے کو بھی دیگر گزرے واقعات کی طرح فراموش کردیا جائے گا؟ اگر ایسا ہوا تو یہ ہمارے معاشرے کے لیے کسی طور مناسب نہیں گردانا جائے گا۔ عابد ملہی کو فوری گرفتار کرنے اور قرار واقعی سخت سزا دینا ضروری ہے۔ اس کے لیے پولیس کی جانب سے ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ناگزیر ہے۔
بہت ہوچکا، درندوں کا راستہ لازمی روکا جائے۔ عوام النّاس کو اپنی ذمے داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔ لوگ اپنے اردگرد اگر کوئی مشکوک کردار کے افراد دیکھیں تو اُن پر ناصرف کڑی نگاہ رکھیں بلکہ اگر کوئی غیر اخلاقی و غیر قانونی سرگرمی کا شبہ ہو تو پولیس کو اطلاع دیں۔ والدین اپنے معصوم بچوں کی سائے کی طرح حفاظت کریں کہ یہاں درندے اپنے شکار کی تلاش میں دندناتے پھرتے ہیں۔ بچوں کو اکیلے گھروں سے باہر نکلنے نہ دیں۔ اُن کو اپنی حفاظت کے حصار میں باہر لے کر جائیں۔ اُن کو ہر طرح سے تحفظ فراہم کرنے کا بندوبست کریں۔ گھروں میں بھی اُنہیں تحفظ دیں اور اگر کہیں عزیز و اقارب کے ہاں جائیں تو وہاں بھی اُن پر نظر رکھیں، اُن کی ذرا بھی غافل نہ ہوں کہ زیادہ تر ایسے کیسز میں رشتے داروں کے ملوث ہونے کے ہی اندیشے ہوتے ہیں۔ پولیس بھی ایسے ملزمان کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے معاملے میں اپنی ذمے داریاں تندہی سے انجام دے۔ ایسے سفّاکوں کو ہر صورت گرفتار کیا جائے، ان کے لیے سخت سزائیں مقرر کی جائیں، یہ کسی رورعایت کے مستحق نہیں، انہیں نشانِ عبرت بنادیا جائے۔ اس میں شبہ نہیں کہ معاشرہ معصوم پھولوں اور خواتین کے لیے صرف اسی صورت موافق اور بہتر ہوسکتا ہے کہ جب درندہ صفت لوگوں کو چُن چُن کر اس سے دیس نکالا دیا جائے۔