نوجوانوں کی امیدوں کا شاعر احمد فراز
اردو ادب میں چار "احمد شاہ” مشہور ہوئے۔ پہلے پطرس بخاری، دوسرے احمد ندیم قاسمی، تیسرے فارغ بخاری اور چوتھے احمد فراز۔ موخرالذکر احمد شاہ یعنی احمد فراز کی آج تیرہویں برسی منائی جارہی ہے۔
احمد فراز اردو ادب کے آسمان پر جگمگانے والے اس آفتاب کا نام ہے، جس کی روشنی سے دنیائے اردو ادب روشن و منور ہے۔ احمد فراز 12 جنوری 1931 کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید محمد شاہ برق کوہاٹی فارسی کے ممتاز شاعر تھے۔ احمد فراز نے اردو اور فارسی میں ایم اے کیا ( بعد میں کراچی یونیورسٹی نے انہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی)۔ احمد فراز نےایڈورڈ کالج پشاور میں تعلیم کے دوران ریڈیو پاکستان کے لیے فیچر لکھنے شروع کیے۔ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ "تنہا تنہا” شائع ہوا تو وہ بی اے کے طالب علم تھے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد ریڈیو چھوڑ کر تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔ دورانِ تدریس ان کا دوسرا مجموعہ "دردِ آشوب” شائع ہوا۔ ان کے اس مجموعہ کلام کو پاکستان رائٹرزگلڈ کی جانب سے ” آدم جی ادبی ایوارڈ ” سے نوازا گیا۔ اس کے بعد وہ پاکستان نیشنل سینٹر (پشاور) کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ 1976ء میں انہیں اکادمی ادبیات پاکستان کا سربراہ بنایا گیا۔ 1977 سے 1989 تک انہوں نے جلاوطنی کی زندگی بھی گزاری۔ 1989 سے 1990 تک وہ چیرمین اکادمی پاکستان،1991 سے 1993 تک سربراہ لوک ورثہ اور 1993 سے 2006ء تک نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سربراہ رہے۔
احمد فراز کو ان کی بہترین شاعری پر 1990ء میں”اباسین ایوارڈ” سے بھی نوازا گیا۔ ان کے فن کی قدر نہ صرف پاکستان بلکہ برصغیر پاک و ہند کے ساتھ ساتھ پوری اردو دنیا میں کی جاتی ہے۔ 1988 ء میں انہیں بھارت میں "فراق گورکھ پوری ایوارڈ” سے نوازا گیا۔ اکیڈمی آف اردو لٹریچر ( کینیڈا ) نے بھی انہیں 1991ء میں ایوارڈ عطا کیا گیا، جب کہ بھارت میں انہیں 1992 ء میں "ٹاٹا ایوارڈ” بھی دیا گیا۔ ان کا کلام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔ جامعہ ملیہ (بھارت) میں ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا گیا جس کا موضوع ” احمد فراز کی غزل ” ہے۔ بہاولپور میں بھی "احمد فراز، فن اور شخصیت” کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا گیا۔ ان کی شاعری کا ترجمہ انگریزی، فرانسیسی، ہندی، یوگوسلاوی، روسی، جرمن اور پنجابی زبان میں بھی کیا جاچکا ہے۔
احمد فراز نے 25 اگست 2008 کو وفات پائی۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام تنہا تنہا، دردِ آشوب، شب خون، نایافت، میرے خواب ریزہ ریزہ، بے آواز گلی کوچوں میں، نابینا شہر میں آئینہ، پسِ اندازِ موسم، سب آوازیں میری ہیں، خوابِ گُل پریشاں ہے،غزل بہانہ کروں، جاناں جاناں، اے عشقِ جنوں پیشہ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔
احمد فراز کے متعدد اشعارزباں زدِ خاص و عام ہیں اور ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ ان کے اشعار ملاحظہ کیجیے:
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھہ ملانے والا
شکوہَ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
آنکھہ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم
یہ بھی بہت ہے تجھہ کو اگر بھول جائیں ہم
اب دل کی تمنا ہے تو اے کاش یہی ہو
آنسو کی جگہ آنکھہ سے حسرت نکل آئے
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملی
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر
چلو میں ہاتھہ بڑھاتا ہوں دوستی کے لیے
اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھہ دیا
بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فرازؔ
کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں
دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے
جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے
دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
اور تجھہ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام ترا
کوئی تجھہ سا ہو تو پھر نام بھی تجھہ سا رکھے
ہوا ہے تجھہ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھہ ایک دنیا تھی
اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی
آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی
اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں
کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھہ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
میں کیا کروں مرے قاتل نہ چاہنے پر بھی
ترے لیے مرے دل سے دعا نکلتی ہے