الوداع اے محسن اسلام ‘علامہ طالب جوہری’
عشق انسانی اور عشق اہلبیت ع کے پھول اپنی زبان سے بکھیرنے کا منفرد ہنر رکھنے والے مفسر قرآن ،معروف عالم دین ، ذاکر اہلبیت ، شاعر ، فلسفی، تاریخ دان ،استاد، فخر ملت ، سرمایہ قوم علامہ طالب جوہری گزشتہ دنوں رحلت فرما گئے۔علامہ صاحب کی نماز جنازہ انچولی میں ادا کی گئی جبکہ تدفین نیو رضویہ میں کی گئی۔
علامہ طالب جوہری پاکستان ٹیلی وژن پر ایک عرصے تک "شام غریباں” کی مجلس پڑھنے والے ایک ایسے معروف عالم تھے جنہیں ناصرف شیعہ بلکہ سنی گھرانوں میں بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا تھا۔علامہ طالب جوہری نے تفسیر قرآن پر کئی کتابیں لکھیں۔حکومت پاکستان نے علامہ کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا۔علامہ پانچ سال جامعہ امامیہ کے پرنسپل رہے اسکے بعد گورنمنٹ کالج ناظم آباد کراچی میں اسلامیات کے مدرس کی حیثیت سے تقرر ہوا۔
علامہ نوجوان نسل کیلئے ہمیشہ نا صرف دینی تعلیم بلکہ دنیاوی تعلیم کا بہترین چراغ بن کر روشن رہے کیونکہ انکے اردو کے عبور کی وجہ سے بے شمار نوجوانوں میں صحیح اردو سیکھنے اور بولنے کا رجحان پیدا ہوا۔علم و ادب ،تہذیب و تمندن ، محبت و شائستگی ،شاعری و مرثیہ گوئی کے ساتھ تفسیر قرآن اور مجلس اہلبیت ع کی روشنی پھیلانے والے عالم اسلام کے عظیم و معروف ذاکر اور نوجوان نسل کے لئے سرکاری ٹی وی پر دس محرم الحرام کو مجلس شام غریباں منفرد انداز میں بپا کرنے کی شناخت کے حامل علامہ طالب جوہری 27 اگست 1939 کو پٹنہ، بہار، بھارت میں پیدا ہوئے۔
اپنے والد کے ہمراہ پاکستان آئے انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد علامہ مصطفی’ جوہر سے حاصل کی کیونکہ وہ ایک بہت بڑے ذاکر تھے.انہوں نے دس سال مذہب کی اعلیٰ تعلیم نجف سے حاصل کی جہاں انہیں فقہ جعفریہ کے نامور علما، خطبا اور مبلغین کی صحبت نصیب ہوئی جس میں آیت اللہ خوئی جیسے زعما بھی شامل ہیں۔عراق میں آیت اللہ العظمی سیّد ابوالقاسم الخوئی کی درسگاہ حوزہ میں داخل ہوئے جہاں آیت اللہ شہید باقر الصدر نے علامہ طالب جوہری کو تعلیم دی۔
دیگر اہم شیعہ علماء مثلاً آیت اللہ العظمی سیّد علی سیستانی اور علامہ ذیشان حیدر جوادی طالب جوہری کے ہم جماعت تھے۔علامہ طالب جوہری کو نجف اشرف کے ممتاز عالم، آیت اللہ سید عبداللہ شیرازی، آیت اللہ سید علی رفانی، آیت اللہ سید محمد بغدادی، آیت اللہ باقرالصدر نے فارغ التحصیل ہونے کی سند دی ! علامہ 1965 کو کراچی واپس آئے۔علامہ کی تحقیقات اور کتب کی بات کی جائے تو بطور عالمِ دین، مفسر اور شاعر علامہ طالب جوہری نے بہت سی کتابیں تحریر کی ہیں جس میں تفسیر القرآن، احسن الحدیث اور حدیثِ کربلا اہم سمجھی جاتی ہیں۔ ذکرِ اہلِ بیت کے حوالے سے آپ نے مقاتل اور ذکرِ معصوم نامی کتب تحریر کیں جنہیں پذیرائی حاصل ہوئی
مذہبی حوالے سے علامہ طالب جوہری نے شیعہ مسلک کے 12 اماموں پر ایک کتاب تحریر کی، آثارِ قیامت کے حوالے سے آپ نے علاماتِ ظہورِ مہدی نامی کتاب بھی تحریر کی۔ عقلیاتِ معاصر فلسفے کی ایک کتاب ہے جو علامہ طالب جوہری نے تحریر کی۔ذاکرِ اہلِ بیت علامہ طالب جوہری اردو شاعری سے بھی شغف رکھتے تھے۔ ان کی شاعری حرفِ نمو، پسِ آفاق اور شاخِ صدا کے نام سے شاعری کی 3 کتابوں میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔شاعری کا آغاز 8 برس کے سن سے ہوا تھا، اب تک علامہ نے خاصی تعداد میں غزلیں، قصیدے، سلام، نظمیں اور رباعیات کہی، 1968 میں علامہ نے وجود باری کے عنوان سے پہلا مرثیہ کہا،علامہ طالب جوہری اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے۔
انہوں نے ہمیشہ نسلی اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی پر زور دیا۔ان کے خطبات کا موضوع احکام اللہ کی پیروی، اتباع سنت رسول ص اور حب اہلبیت ع ہوا کرتا تھا۔ انہیں شیعہ اور سُنی مسالک میں ایک جیسا باوقار مقام حاصل رہا ہر دو انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کی تقاریر و تحاریر سے استفادہ کرتے ہیں ۔سنی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے بے شمار افراد یہ علامہ کے انتقال کے وقت سوشل میڈیا پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ وہ علامہ کو محرم میں سنا کرتے تھے۔علامہ نے امت کو متحد کرنے کی ہمیشہ بہت کوشش کی۔بین المسالک ہم آہنگی کی اگر بات کی جائے تو بلا شبہ علامہ طالب جوہری کا بیان ایک شیعہ عالم ہونے کے باوجود سرکاری ٹی وی چینل پر طویل عرصے تک اس لیے چلتا رہا کیونکہ انہوں نے مسلک کی بنیاد پر تفریق اور فرقہ واریت پھیلانے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ وہ بین المسالک ہم آہنگی کے علمبردار سمجھے جاتے تھے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کو شیعہ اور سنی عقیدت اور احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں اور واقعۂ کربلا کی اہمیت شیعہ اور سنی کے ساتھ ساتھ دیگر تمام مسالک کیلئے اظہر من الشمس ہے۔ ذاکرِ اہلِ بیت کی حیثیت سے علامہ طالب جوہری کے خطبات ہر مسلک کے مسلمان ماضی میں بھی سنتے تھے اور آج بھی ان کی ریکارڈنگز مختلف سوشل میڈیا کے ذریعے سنی جاتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ علامہ طالب جوہری نے جو علم حاصل کیا اس میں منطق اور فلسفہ بھی شامل تھا جس کی بنیاد پر وہ اپنی ہر دلیل کو قرآن سے بہت آسانی کے ساتھ ثابت کردیا کرتے تھے اور یہی بات ان کی شہرت کو عروج بخشنے کا سبب بنی۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ ان چند علماء میں سے ایک ہیں جنہیں صرف شیعہ ہی نہیں بلکہ پورا پاکستان سنتا اور سمجھتا تھا۔ ذکرِ اہلِ بیتِ اطہار کا اظہار اور انداز دل کو چھو لینے والا تھا اہلِ بیت کا ذکر علامہ طالب جوہری کی زندگی کا ایک خاص وصف تھا۔واقعۂ کربلا بیان کرتے ہوئے ہر آنکھ کو اشکبار کرنا وہ بخوبی جانتے تھے کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو کس طرح شہید کیا گیا، اہلِ بیت نے کس کس طرح کے ظلم سہے، پانی بند ہونے سے پیاس سے چور میدانِ کربلا میں لڑنے والوں نے اسلام کی کس طرح حفاظت کی؟
یہ سارے سوالات اور ان کے جواب علامہ طالب جوہری کا خاص موضوع ہوتے تھے عام طورپر علامہ طالب جوہری اپنے بیان کا آغاز قرآن پاک کی کسی آیت اور اس کی عقلی تفسیر سے کرتے تھے۔ فلسفےکی مدد سے وہ بعض آیات کی ایسی تفسیر بیان کیا کرتے تھے جو عام طور پر عوام الناس کے ذہن میں نہیں ہوتی تھی۔اور سب سے خاص بات یہ کہ وہ عشرے میں جب کسی ایک خاص موضوع کو لے کر چلتے تھے مثال کے طور پر توحید،رسالت یا دیگر موضوعات تاکہ سننے والوں تک زیادہ سے زیادہ دینی علم پہنچایا جا سکا اپنے مخصوص انداز میں جب وہ کوئی آیت اور اسکی تفسیر بیان فرماتے تھے تو اس اسکا پارہ نمبر اور صفحہ نمبر بتا کر یہ فرمایا کرتے تھے کہ مجلس کے بعد یہ جا کر ضرور پڑھنا۔انکی بے شمار ایسی علمی باتیں ہیں جس سے کسی خاص فقہ سے بالا تر ہو کر اگر انسان ایک بہترین مسلمان بننے اور دینی علم کو سمجھنے کا چایے تو انکے دلائل کا انکاری نہیں ہو سکتا۔
قرآنِ پاک کی منفرد تفسیر میں اسی لئے انکا سرفہرست نام ہے علامہ طالب جوہری قرآنِ پاک کی منفرد مگر قابلِ فہم تفسیر بیان کرتے تھے جو آسانی سے ہر انسان کی سمجھ میں آجاتی تھی اور لوگ انہیں دل کھول کر داد دیا کرتے تھے۔مثال کے طور پر سورۃ الفیل کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کیا تو نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ یہاں علامہ طالب جوہری کے نزدیک اللہ تعالیٰ نبی کریم ص سے سوال کر رہا ہے کہ کیا آپ نے نہیں دیکھا ہاتھی والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا گیا؟تفسیر بیان کرتے ہوئے علامہ طالب جوہری نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ واقعۂ فیل یعنی کعبہ کو مسمار کرنے کیلئے آنے والے ہاتھیوں پر ابابیلوں کا پتھر برسانا اور فوج کا پسپا ہونا حضورِ اکرم ص کی ولادت سے سالوں پہلے کا واقعہ ہے۔مفسرِ قرآن علامہ طالب جوہری کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا حضور ص سے یہ سوال کرنا بلا وجہ نہیں ہے جبکہ سوال کرنے کی وجہ دراصل یہ ہے کہ نبی کریم ص اپنی ولادت سے قبل ہونے والے اس واقعے کو بھی دیکھ رہے تھے اور اس کی تمام تفاصیل جانتے تھے بےشک علامہ طالب جوہری علم کا سمندر تھے اور یقینا” وہ مدینتہ العلم ص اور باب العلم ع کیلئے قابل ناز ہیں اسکی دلیل انکے بیان کی علامت شام غریباں ہے.
جو علامہ سے ہر انسان کیلئے اسطرح سے منسوب ہو گئی کہ وہ شیعہ ہو یا سُنی۔ہر گھر علامہ کی شام غریباں کے بغیر ادھورا ہے۔کہتے ہیں کہ جب ایک عالم فوت ہو جاتا ہے تو اسلام میں ایسا خلاء پیدا ہوتا کہ روز قیامت تک اسے پر نہیں کیا جاسکتا تو پھر علامہ طالب جوہری تو علم کا ذخیرہ تھے قرآن فہمی کے باب کا ایک برج جس نے قرآن پڑھنے اور سمجھنے کا سلیقہ سکھایا ہاں یہ سچ ہے کہ وہ جو رخصت ہوئے ہیں تو پھر نہیں آئیں گے یہ سچ ہے کہ جنت کے سرداروں کے ذاکر کو سب سے بڑی بارگاہ یعنی اللہ کی بارگاہ میں بلا لیا گیا۔علامہ طالب جوہری کو 10 جون کو کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق علامہ دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور گزشتہ کچھ دنوں سے وینٹی لیٹر پر تھے۔
ان کی نمازِ جنازہ میں سوگواران سمیت انکے لاکھوں چاہنے والوں نے شرکت کی جبکہ ممتاز علماء، سیاسی اکابرین اور سماجی شخصیات کے مطابق علامہ طالب جوہری کی وفات سے ذکرِ اہلِ بیت کا ایک شاندار عہد ختم ہوگیا جسے ہمیشہ یاد کیا جائے گا اور علامہ طالب جوہری کے چاہنے والے اشکبار آنکھیں لئے انہیں دعائیں دیتے دکھائی دیئے۔علامہ طالب جوہری نے نے اپنے سوگواران میں اہلیہ، 3 بیٹے اور 3 بیٹیاں چھوڑی ہیں جبکہ وزیرِ اعظم عمران خان، وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیرِ اطلاعات شبلی فراز، وزیرِ بحری امور علی زیدی سمیت ملک کی نامور سیاسی و سماجی شخصیات نے ان کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔جنازے میں سیاسی جماعتوں کے لیڈران نے بھی شرکت کی۔
عالمِ اسلام کی مشہور و معروف شخصیت، عالمِ دین اور مفسرِ قرآن علامہ طالب جوہری کے انتقال سے واقعۂ کربلا بیان کرنے کے ایک مدلل انداز اور ذکرِ اہلِ بیت کے ایک سنہرے باب کا اختتام ہوگیا۔بلاشبہ علامہ طالب جوہری کی وفات عالمِ اسلام کیلئے بالعموم اور شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلم طبقے کیلئے ایک عظیم نقصان ہے۔علامہ کے بارے میں لکھنے کیلئے میری یا میرے قلم کی کوئی حیثیت نہیں مگر بچپن سے علامہ کی دینی خدمات نے جسطرح مجھ پر اور میرے اجداد پر شفقت کا سایہ کیا وہ ناقابل فراموش ہے علامہ کو بچپن سے میں نے اپنے بزگوں میں شمار کیا اور انکی آواز اور علم کی طاقت نے مجھے لکھنے اور بولنے کا ہنر بخشا میرے دل کی ہر بے چینی کو قرآن اور علم کے ذریعے قرار بخش کر میری طرح نہ جانے کتنے مسلمانوں کی زندگیوں پر احسان کیا۔بحیثیت علامہ کی مداع اور طالب علم مجھ سمیت تمام امت مسلمہ کے محسن علامہ طالب جوہری کی زندگی کے چیدہ چیدہ پہلوؤں کا جائزہ لینے کی کوشش کی تاکہ سب پر یہ آشکار ہوسکے کہ مرحوم کی شخصیت کو خدائے بزرگ و برتر نے کن اعلیٰ شخصی اوصاف سے نوازا تھا۔
اگر میری اس کوشش میں کوئی خطا ہو گئی ہو تو معافی کی طلبگار ہوں۔ علامہ کے تمام سوگواران سے دلی تعزیت کرتے ہوئے عالم اسلام کو پرسہ پیش کرتی ہوں بے شک علامہ طالب جوہری ہمارا اثاثہ تھے علامہ کا مجلس کے اختتام پر منفرد انداز سوشل میڈیا پر ہر انسان لکھ کر ،پڑھ کر اور سن کر رو رہا ہے اور میں آج اس تحریر کا اختتام محسن اسلام علامہ طالب جوہری کو الوداع کرتے ہوئے اس پر ہی کرونگی۔ ” تم نے گریہ کیا، مجلس تمام ہوگئی اور اب تو دامن وقت میں گنجائش بھی نہیں۔”