تنہائی ہمارے روشن کل کی امید
دنیا میں موجود ہر چیز کا کوئی نہ کوئی فائدہ اور نقصان ضرور ہے۔ اِسی طرح ہماری زندگی کے افعال میں بھی فائدہ نقصان موجود ہوتا ہے لیکن زندگی میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جنکا نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہوتا ہے۔ کچھ انسان دنیا کی رنگینیوں سے کہیں کوسو دُور اتنی آسائش ہونے کے باوجود تنہا رہنا پسند کرتے ہیں صرف چند لوگوں کا ساتھ جو ذاتی طور پہ آپکی كیفیيات سے آگاہ ہوں بس اُن چند کے علاوہ اپنا ذاتی دوست بنانا تنہا لوگوں کا شیوا نہیں۔
جب لوگوں کی منافقت سے، اُنکے دلوں کو چیر دینے والے الفاظ، کچھ ایسے زخم جنہیں لفظوں میں بیاں نہیں کیا جاسکتا، کینہ پروری سے، بغض سے اور جھوٹی محبّت کے دعویدار جب دل کو افسردہ کرجائیں تو انسان خود کو تنہا محسوس کرتا ہے ۔ لیکن پھر یہی تنہائی ماضی کی تلخیوں کو مِٹا کر ایک بہتر مستقبل کی سوچ پیدا کردیتی ہے، تنہائی میں ایسے سجدے جو کسی کو پانے کی تڑپ میں خدا سے ملاقات کرادیتے ہیں، یہی تنہائی جو مجازی عشق کے ساتھ حقیقی عشق تک پہنچنے کی منزل بن جاۓ، تنہائی میں ایسی دعائیں جو کسی کا عمر بھر ساتھ مانگنے کے ساتھ خدا کے ہمیشہ ساتھ ہونے کی دلیل بن جائیں۔
یہی تنہائی آپکو اپنا محاسبہ کرنا سکھادیتی ہے، خود کو جاننا و پہچاننا سکھادیتی ہے، ضمیر کی آواز کو باآسانی سننے کے قابل بنادیتی ہے، آپکو سوچنے پر مجبور کردیتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ تنہائی رب عزوجل سے آپ کی ملاقات کرادیتی ہے ایسی ملاقات کہ جس میں خدا کے ‘ کُن ‘ کہنے کی امید ہمیشہ زندہ رہتی ہے، ایسی ملاقات جہاں خالقِ حقیقی کے سامنے گِڑگِڑاؤ تو کبھی مذاق نہیں بنایا جاتا لیکن وہ تو اپنے بندوں کے دلوں کے حالات سے واقفیت رکھتا ہے پس اُسے ہمارا مانگنا بےحد پسند ہے اور خاموشی سے ہماری آرزؤں کو، خواھشات کو، تمناؤں کو سُنتا اور پھر قبول بھی کرتا ہے ۔
الغرض تنہائی اگر دنیا کی رنگینیوں سے الگ کردیتی تو وقت آنے پر یہی تنہائی خوشیوں کے رُوپ میں زندگی میں رنگ بھی بکھیر دیتی ہے۔ بس خدا پر کامل یقین رکھتے ہوئے صرف اُسی ذات سے مانگنا ہے جو ناکامی کے بعد کامیابیاں ضرور دیتا ہے، مشکلات کے بعد آسانیاں پیدا کرتا ہے، غم و آلام کے بعد خوشیوں کے اسباب ضرور پیدا کرتا ہے ۔ لہٰذا مانگنے کی لگن دل میں ہو۔ پس یہ وقتی پریشانی و تنہائی ہمارے روشن کل کی امید ہے ۔