چپلی کباب ان شارجہ
مارا خیال تھا کہ مڈل ایسٹ میں آپ کو ہر قسم کے کھانے بآسانی دستیاب ہوں گے، مگر جن ذائقوں کے عادی ہم پاکستان میں ہیں، وہ یہاں ناپید ہیں۔ جو چٹورا پن اور زبان کی حساسیت ہمیں پاکستان میں ملتی ہے وہ یہاں ممکن ہی نہیں۔ شاید یہ ہماری اپنی پاکستانی نفسیات ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ مڈل ایسٹ میں کھانے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق بنائے جاتے ہیں جس سے کھانوں کا روایتی تیکھا پن ختم ہوجاتا ہے، دوسرے خاموش پرسکون ماحول میسرہوتا ہے جو ہم جیسے پاکستانیوں کیلئے اجنبی ہے، تیسرا جب آپ کسی پاکستانی ہوٹل میں بیٹھ کر دنبے کی کڑاھی کا آرڈر دیتے ہیں اور بنگالی ویٹر آپ کو کٹورا پکڑا کر کہتا ہے، ” شوب انجوائے کرو۔” تو پتہ نہیں کڑاہی سے دنبے کی ہیک کے بجائے مچھلی کی بساند کیوں آنے لگتی ہے۔ ایک دفعہ ہم نے کراچی میں زاہد نہاری کے مالک سے شکایت کی کہ صاحب آپ کی نہاری کھانے اسلام آباد سے مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز تک آتے رہے ہیں اور آپ کی اتنی سیل ہے مگر پھر بھی آپ کو ایئر کنڈیشن لگانے کی توفیق کیوں نہیں ہے؟ جناب نے اپنا بڑا سا پیٹ کھجلا کر جواب دیا، "نہاری کا مزہ اس وقت تک نہیں جب تک تیز مصالحے سے آپ کے آنسو نہ نکلیں، ناک سڑسڑا کر پسینے سے شرابور ہو، اور آپ بونگ کی بوٹیاں چبائیں، جو یہ نہ ہو تو مزہ کیا نہاری کا!” ہمارے ذہن میں آج تک یہی بات بیٹھی ہوئی تھی۔
دبئی میں زیادہ تر پاکستانی ریستورانوں کے مالکان کی توجہ پیسہ بٹورنے پر ہوتی ہے۔ خوبصورت فلپائنی ویٹریس رکھ کر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید پاکستانی یہاں چسکے مسکے لینے واسطے ان کی سیل بڑھائیں گے۔ ان کو نہیں معلوم کہ یہی پاکستانی، جو پاکستان میں گارمنٹ اسٹورز میں ایستادہ مجسموں کو بھی ہوس آلود نگاہوں سے دیکھنے سے باز نہیں آتے، یہاں غم روزگار کی وجہ سے اپنی بیویوں کو بھی باجیوں کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ العین میں ایک بھی پاکستانی ہوٹل اس قابل نہیں جہاں بیٹھ کر اپ دال روٹی کھا سکیں۔ ابوظہبی کا بھی یہی حال ہے، مگر دبئی میں پاکستانی کھانے قابل قبول ہیں، مگر ان کا معیار بھی ہم جیسے روایتی پاکستانیوں کا ہم پلہ نہیں۔ ابوظہبی میں اگر آپ کو بکرا کڑاہی کھانی ہو تو مصحفی میں واقع خیبر شنواری ریسٹورنٹ واقعی کمال کی سلمانی کڑاہی بناکر اپ کو پشاور رنگ روڈ کا سواد دیتا ہے۔ گوشت کو ابال کر کڑاہی نہیں بنائی جاتی، بلکہ کچے گوشت کو نمک اور کالی مرچ لگا کر تیل میں بھونا جاتا ہے کم از کم ایک گھنٹہ لیا جاتا ہے۔ واقعی مزیدار کڑاہی بنا کر دیتے ہیں۔ شارجہ میں کوہاٹ کے ایک ڈاکٹر چپلی کباب کے اتنے شوقین ہیں کہ انھوں نے کباب کے مختلف ذائقے چکھنے کیلئے ترکی، سینٹرل ایشیا اور پشاور کا چپہ چپہ چھان مارا ہے۔ بالآخر درہ آدم کے اکبر استاد کے کباب نے ان کو بتا ہی دیا کہ چپلی کباب دراصل یہی کباب ہے، جو صدیوں سے اکبر کے خاندان والے بیچ کر کوہاٹ، کرک، بنوں و پشاور کو اپنا گرویدہ بنائے بیٹھے ہیں۔ موصوف نے استاد کو کان سے پکڑا اور شارجہ لاکر دم لیا۔
چپلی کباب کی خاصیت یہی ہے کہ گوشت سخت نہیں ہوتا بلکہ جوسی ہوتا ہے۔ گوشت کے فائبر ٹوٹتے نہیں کیونکہ گوشت بھینس کا ہوتا ہے۔ مدینہ ریستوران کے کباب جب میں نے کھائے تو حیرت انگیز طور پر گوشت لچکیلا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ عرب امارات میں بھینس کا گوشت کہاں دستیاب ہوگا؟ تو ڈاکٹر بنگش نے بتایا کہ وہ خصوصی طور گوشت پشاور اور مردان سے درآمد کر رہے ہیں۔ وہی ذائقہ وہی رنگ جو جاڑوں میں پشاور سے آتے ہوئے درہ آدم خیل میں استاد اکبر کے دوکان کے سامنے گاڑی کھڑی کرکے میں گرما گرم کباب کھا کر انجوائے کرتا ہوں۔
آج زاہد نہاری کے مالک کی بات بھی غلط ثابت ہوگئی کہ کھانے کیلئے مخصوص ماحول چاہیے۔ کھانے کیلئے اپ کو بہترین ذائقہ دینے والا چاہیے ہے، خواہ وہ درہ آدم خیل کے استاد اکبر کی دکان ہو یا شارجہ میں ڈاکٹر بنگش کی چھابڑی، ذائقہ ذائقہ ہوتا ہے استاد۔