افغان حکمران اور اقوام متحدہ کی نمائندگی
امریکا کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد خطے کی صورتحال خاصی بدل سی گئی ہے۔ انڈیا جیسے ملک نے، جس نے امریکی دور میں افغانیوں اور افغانستان کی زمین کو پاکستان کیخلاف استعمال کیا، اب خاصا پریشان ہے۔ بھارت یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان اس کے لئے خطرہ ہے۔ ماضی میں بھی طالبان حکومت سے بھارت کے تعلقات اچھے نہیں رہے۔ دوسری جانب چین اور پاکستان افغانستان کے نئے حکمرانوں سے مطمئن اور خوش نظر آتے ہیں۔ چین قطر اور پاکستان افغانستان کے نئے حکمرانوں کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے والے ممالک میں شامل ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے افغان پالیسی کا فیصلہ کا قبل از وقت ہوگا۔
جنرل مشرف کے دور میں جو کچھ ہوا، افغان طالبان کے کچھ گروہ اس کی وجہ سے پہلے جیسی دوستی کے حامی نہیں، لیکن طالبان رہنما پاکستان سے اچھے تعلقات ہی چاہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جہاں ایک ٹرک سے پاکستان کا پرچم اتارا گیا وہیں ایسے کرنے والے افردا کو طالبان کی جانب سے گرفتار بھی کیا گیا۔ دونوں واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ طالبان میں کچھ لوگ پاکستان سے خوش نہیں تو کچھ کیلئے پاکستان انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اہم خبر یہ ہے کہ طالبان نے اقوام متحدہ میں نمائندگی کا مطالبہ کردیا ہے۔ طالبان نے کہا ہے کہ انھیں رواں ہفتے نیو یارک میں ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران عالمی رہنماؤں سے خطاب کرنے کا موقع دیا جائے۔ طالبان حکومت کے وزیر خارجہ نے پیر کو ایک خط میں یہ درخواست کی۔ اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی اس درخواست پر فیصلہ کرے گی۔ طالبان نے دوحہ میں مقیم اپنے ترجمان سہیل شاہین کو اقوام متحدہ کے لیے افغانستان کا سفیر نامزد کیا ہے۔
گزشتہ ماہ افغانستان کا نظام سنبھالنے والے طالبان کا کہنا ہے کہ معزول حکومت کے ایلچی اب ملک کے نمائندہ نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے ترجمان کے مطابق اس اعلیٰ سطح اجلاس میں حصہ لینے کی طالبان حکومت کی درخواست پر ایک کمیٹی غور کر رہی ہے، جس کے نو ارکان میں امریکا، چین اور روس شامل ہیں، تاہم آئندہ پیر کو جنرل اسمبلی کے اجلاس کے اختتام سے قبل تک اس کمیٹی کے ارکان کی ملاقات کا امکان نہیں ہے اور اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق اس وقت تک سابق افغان حکومت کے ایلچی غلام اسحاق زئی ہی اقوام متحدہ میں افغانستان کی نمائندگی کریں گے۔ یقینی طور پر امریکا اور اس کے اتحادی اس درخواست کی مخالفت کریں گے۔ امریکا افغانستان کے نئے حکمرانوں کو یہ حق دینے کے حق میں نہیں ہوگا۔ ایسا کرنے سے اقوام عالم ایک بار پھر طالبان کو خود سے دور کریں گے، جس سے ماضی جیسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ قطر نے بھی تمام ممالک پر اس بات کیلئے زور دیا ہے کہ افغان طالبان کو اقوام متحدہ میں نمائندگی دی جائے اور ان کی بات سنی جائے۔
اس معاملے کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس کے مثبت پہلو زیادہ ہیں۔ ظاہر ہے طالبان حکومت جب اقوام متحدہ کا حصہ ہوگی تو اسےاقوام متحدہ کے قواعد کی بھی پاسداری کرنا ہوگی۔ اقوام متحدہ طالبان حکومت کو اس بات کی پابند کرسکتی ہے کہ وہ دیگر ممالک سے تعلقات بہتر رکھیں اور ملک میں تعلیم کے سلسلے کو نہ روکیں۔اسی طرح اگر طالبان اقوام متحدہ کا حصہ ہوں گے تو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی کوششوں سے افغانستان میں صحت کی صورتحال کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اگر افغانستان کورونا یا پولیو جیسی بیماریوں سے متاثر ہوگا تو اس کا خطے پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ یہ ممکن ہوگا کہ ڈبلیو ایچ او کے تحت افغان طالبان کو بھی ویکسین کی افادیت سے آگا ہ کیا جائے۔ اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ بیٹھنے سے افغانستان میں دیگر ممالک کے باشندوں کی نقل و حرکت محفوظ بنے گی اور تجارت کو فروغ ملے گا۔ اگر کوئی طالبان کے ماضی کو بنیاد بنا کر طالبان کی نمائندگی کی مخالفت کرتا ہے تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک اور نمائندوں کے ماضی اور حال پر نظر ڈالی جائے۔ اقوام متحدہ کے اراکین میں اسرائیل شامل ہے جو کہ لاکھوں فلسطینوں کا قاتل ہے اور دنیا کے کئی ممالک نے تاحال اسے بطور ملک تسلیم ہی نہیں کیا۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے اراکین میں بھارت بھی شامل ہے جو کہ کسی صورت کشمیریوں کو ان کا جمہوری حق دینے کو تیار نہیں اور اقوام متحدہ کی قراردار کو بھی ماننے سے انکاری ہے۔ بھارت نہ صرف ہزاروں کشمیریوں کا قاتل ہے بلکہ بھارت کے اپنے علاقوں میں بھی مسلم قوم اور نچلی ذات کے ہندوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کالے کارناموں والے اراکین کی فہرست یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ برما جیسا ملک بھی یو این او کا رکن ہے اور سب سے بڑھ کر خود امریکا کا ماضی بے گناہ خون سے داغ دار ہے۔ جب ایسے ممالک کے افراد اپنے ملک کی نمائدگی کرسکتے ہیں اور دنیا کے سامنے اپنی بات رکھ سکتے ہیں تو طالبان کو کیوں کر یہ حق نہ دیا جائے۔ اگر ان کا کوئی جرم ہے بھی تو کم از کم ان ممالک سے زیادہ تو نہیں۔
طالبان کا موجودہ طرز حکومت تاحال ماضی سے بہت تبدیل نظر آرہا ہے۔ ایسے میں دنیا کے اہم ممالک کا فرض بنتا ہے کہ انہیں تبدیلی کا موقع دیا جائے ۔افغانستان کو طالبان کی حکومت میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا دنیا کے دیگر ممالک کو ہے۔ بہتر بلکہ بہترین فیصلہ یہی ہوگا کہ افغان طالبان کو اقوام متحدہ میں نمائندگی دی جائے، تاکہ وہ اپنی بات دنیا کے سامنے رکھ سکیں اور بہتر مستقبل اور دنیا سے دوستانہ تعلقات کی جانب قدم بڑھائیں۔ اس ضمن میں پاکستان، روس، چین، قطر اور ترکی کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر افغان طالبان کو رکنیت سے دور رکھا گیا تو آنے والے وقتوں میں ان کے کسی بھی عمل پر انہیں روکنے یا ان سے شکایت کرنے کا حق دنیا کے دیگر ممالک کو نہیں ہوگا اور یہ عمل ایک بار پھر دنیا کو جنگ کی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ سب اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں اور مل بیٹھ کر آگے بڑھیں، بصورت دیگر سرد جنگوں اور حیاتیاتی جنگ کے بعد جنگ عظیم سوئم کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا جو آنے والی نسلوں کی تباہی اور بربادی کا باعث ہوگی۔