کسی اور کی زندگی میں مت جھانکیں
ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔ ہماری زندگی بیسیوں صدی کی زندگی سے بہت مختلف ہے، بلکہ بالکل ہی مختلف ہے۔ ہمارا رہن سہن، چال چلن اور بول چال پرانے لوگوں سے بالکل ہی الگ ہے۔ ہمارا کھانا پینا، اوڑھنا پہننا اور معاشرتی انداز و اطوار بھی یکسر جدا ہیں۔ آج کے زمانے میں لوگوں کے رویے بھی بدلے ہوئے ہیں۔ زندگی کا رنگ ڈھنگ، سماجی میل ملاپ اور باہمی تعلقات کی نوعیت بھی ایک دم تبدیل ہیں۔
آج سےتیس چالیس برس قبل لوگ ساتھ رہنا، جینا اور مرنا چاہتے تھے۔ گھر، خاندان، گلی محلے میں لوگ اتنے گھلے ملے ہوتے تھے کہ وہ باتیں سن کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنے قریب تو آج کل رشتے دار بھی نہیں ہوتے۔ آپ پچھلی تین چار دہائیوں کا موازنہ کریں تو سب کچھ ہی بدلا ہوا ملے گا۔ کل اپنے گھر کی بات سارے محلے کو خود ہی بتائی جاتی تھی، مگر آج کوئی خود سے متعلق کوئی بات کسی دوسرے کو بتانا نہیں چاہتا۔ کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا شخص اس کی زندگی میں مداخلت کرے۔ اس کو آج کل کی عام فہم زبان میں "پرائیویسی” کہا جاتا ہے۔
یہ ”پرائیویسی” ہے کیا چیز؟ پرائیویسی ایک ایسی حالت کو کہا جاتا ہے جس میں دوسرے لوگ کسی انسان کی زندگی میں مداخلت نہیں کرتے اور اسے اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا حق دیتے ہیں۔ پرائیویسی کا بنیادی تصور یہ سمجھ لیجیے کہ کسی سے اس کی نجی زندگی سے متعلق سوال نہیں کیا جاتا۔ پرائیویسی ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں جو دوسروں کی پرائیویسی کا خیال رکھتے ہوں۔ ہمارے ہاں اس عجیب رویے کو ”بے تکلفی”اور ”اپنائیت” سمجھا جاتا ہے۔ لوگوں کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کی تانکا جھانکی کی یہ عادت کسی دوسرے کی زندگی جَھنڈ کرکے رکھ دیتی ہے۔
اگر میں یہ کہوں کہ یہ پرائیویسی آج ہماری زندگیوں کی چند ایک اولین ترجیحات میں سے ہے تو یقینا ً غلط نہیں ہوگا۔ یہ آج کی چلتی پھرتی بلکہ بھاگتی دوڑتی زندگی کی چند بنیادی ضرورتوں میں سے ہے۔
کسی زمانے میں ہم سنا کرتے تھے کہ عورت سے اس کی عمر اور مرد سے اس کی تنخواہ نہیں پوچھنی چاہیے، مگر لوگ پوچھتے پھر بھی تھے۔ آج کی مثال لے لیں، عام سوالات کہ تمہاری عمر کتنی ہوگئی؟ فلاں شعبے میں کیوں داخلہ لیا؟ سائنس کے بجائے آرٹس کیوں لے لی؟ مارکس بہت کم نہیں آئے؟ تنخواہ کتنی ہے تمہاری؟ یا کتنا کمالیتے ہو؟ کسی کی ملازمت چلی گئی تو اس کے ساتھ تعاون کی بجائے یہ سوال کہ کمپنی نے کیوں نکالا؟ آپ کے والد یا بھائی کیا کرتے ہیں؟ گھر کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟ کون کتنے پیسے گھر دیتا ہے؟ شادی کب ہوگی؟ فلاں کی شادی ہوگئی، آپ کی کیوں نہیں ہورہی؟ شادی میں کتنے اخراجات آئے؟ سلامی کتنی ملی؟ لفافے کتنے اور تحائف کیا کیا ملے؟ گھڑی سسرال سے تو نہیں آئی؟ بیگم کی ڈیلیوری میں کتنا خرچہ آیا؟ اتنے کمزور کیوں ہوگئے ہو؟ یا پھر وزن کیوں بڑھتا جارہا ہے؟ کسی نے مکان تعمیر کرایا تو پوچھ لیا کہ کتنے میں بنا؟ قربانی کا جانور کتنے میں لائے؟؟؟ وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح سوالات کے علاوہ لوگوں کے کچھ شکوے یا تبصرے ایسے ہوتے ہیں کہ سننے والے کا سر پیٹنے کا دل کرتا ہے۔ یہ اپنائیت میں حد سے گزر جاتے ہیں لیکن یہ جملے کسی کو کتنی تکلیف دیتے ہیں، اس کا اندازہ بالکل نہیں ہوتا۔ آپ ذرا یہ تو دیکھیں کہ آپ پوچھ کس سے رہے ہیں۔ آپ کے ان سے تعلقات کس نوعیت کے ہیں، کیا آپ کی کوئی بات ان کو نامناسب تو نہیں لگے گی؟ اتنی ”اپنائیت ”کا اظہار کریں گے تو کیا اگلی بار وہ شخص آپ سے ملے گا؟ اس موقع پر لوگوں کو یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ بھئی اگر وہ بتانے کی بات ہوئی یا آپ کسی کے دل کے قریب ہیں تو وہ آپ کو خود بتائے گا، اگر نہیں بتارہا تو آپ کو کریدنا چاہیے؟
ایک جانب لوگوں کا یہ ”محبت بھرا رویہ” ہے تو دوسری جانب ہونا تو یہ چاہیے کہ جس شخص سے جس پریشانی، مسئلے یا معاملے پر بات کررہے ہیں،، اگر اس کے حالات واقعی برے ہیں تو اس کی مدد کی جائے۔ اس کی پریشانی دور کرنے کی کوشش ہونی چاہیے، مگر یہاں لکھ کر رکھ لیجیے کہ یہ ”اپنے” کبھی کسی کام نہیں آتے۔آپ ان سے بس باتیں کروالیں۔
آپ نے اپنے ارد گرد بہت سے لوگ ایسے دیکھے ہوں گے جو ہر وقت دوسروں کی زندگیوں میں گھسے رہتے ہیں مگر جہاں کہیں کوئی ان سے کچھ پوچھ لے تو ایسے بھڑک اٹھتے ہیں جیسے کسی نے دُم پر پیر رکھ دیا ہو۔ جب اپنی زندگی میں دوسروں کی مداخلت نہیں پسند تو ہمیں دوسروں کی زندگی میں مداخلت کا بھی کوئی حق نہیں پہنچتا۔ اس لیےاچھا ہے کہ کسی دوسرے کے گھر میں نہ جھانکیں، کسی اور کی زندگی میں نہ کود پڑیں، لوگوں کے معاملات کی ٹوہ میں نہ رہیں۔ اس سے بہتر یہ ہوگا کہ ہم کسی کی مشکلات بڑھانے کی بجائے اپنی زندگی کی فکر کریں، خودبھی جیئیں اور دوسروں کو بھی جینے دیں۔