سندھ کا نیا بجٹ، نئے خواب
سندھ کا نیا بجٹ ،نئے خواب
تحریر عاجز جمالی
بجٹ وفاقی ہو یا پھر صوبوں کا ہو بجٹ کو اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ کہا جاتا ہے۔ بجٹ الفاظ کی جادوگری بھی ہوتا ہے یا پھر اقتصادی ماہرین کا جادو۔ مگر ہر سال بجٹ پیش ہوتا ہے بجٹ سے عوام کی وابستگی تنخواہ اور پینشن بڑھنے اور مہنگائی کم ہونے کے سوال تک ہوتی ہے۔ حسب دستور مہنگائی تو کم نہیں ہونی البتہ تنخواہ بردار طبقے کو کچھ نہ کچھ رلیف مل ہی جاتا ہے۔ بجٹ وفاقی ہو یا پھر صوبوں کا جب مالی سال اختتام پذیر ہوتا ہے تو بہت سارے وعدے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتے اور بہت سارے اعلانات بجٹ دستاویزات کی زینت ہی رہ جاتے ہیں۔ بجٹ میں دکھائے گئے بہت سارے خواب یا تو ادھورے رہ جاتے ہیں یا پھر تعبیر کی تلاش میں تھک جاتے ہیں۔
صوبہ سندھ کا بجٹ منگل کے روز سندھ اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ وزیر اعلی سندھ جو کہ خود گذشتہ تین برسوں سے خزانے کی کُنجی بھی سنبھالے ہوئے ہیں وہ ایوان میں بجٹ پیش کریں گے۔
سندھ کا رواں مالی سال بھی ہر سال کی طرح ترقی کے خوابوں کا متلاشی رہا۔ سندھ کی ترقی بھی ایک خواب ہی ہے جس کی تعبیر یکم جولائی سے شروع ہوکر ایک سال کے بعد پھر یکم جولائی کو سفر شروع کرتی ہے۔ خوابوں اور خوابوں کی تعبیروں کا یہ سفر برسوں سے جاری ہے۔ سہانے سپنے بس سپنے ہی رہ جاتے ہیں۔ کوئی تعبیر نہیں کوئی تعمیر نہیں۔
نئے مالی سال کے سندھ بجٹ میں سرکاری ملازمین اور پینشنرز کے لئے یہ خوشخبری ہے کہ سندھ سرکار تنخواہوں اور پینشن میں پندرہ فیصد تک اضافہ کرنے جا رہی ہے۔نئے مالی سال کے سندھ بجٹ کا تخمینہ ساڑھے تیرہ سو ارب روپے کا ہے۔
سندھ کے ترقیاتی بجٹ کا تخمینہ دو سو ساٹھ ارب روپے سے بڑھا کر دو سو اسی ارب روپے لگایا گیا ہے ترقیاتی بجٹ کے ساتھ ساتھ غیر ترقیاتی بجٹ میں بھی ایک کھرب روپے تک اضافے کا امکان ہے۔ بجٹ میں ٹیکس وصولی کا ہدف ڈیڑھ سو ارب روپے مقرر کیا جا رہا ہے۔
غیر ترقیاتی اخراجات ایک ایسا مد ہے جو ہمیشہ مقرر کردہ ہدف سے بڑھتا ہے اور ترقیاتی بجٹ میں جتنی رقم مختص کی جاتی ہے وہ کبھی خرچ ہی نہیں ہوتی۔ عجیب صورتحال ہے کہ غیر ترقیاتی اخراجات کا بجٹ بڑھ جاتا ہے اس وجہ ہی بجٹ میں خسارہ ہوتا ہے پھر مجبور ہوکر ضمنی بجٹ اسمبلی سے منظور کروانا پڑتا ہے اور ترقیاتی بجٹ جو ویسے ہی کم ہوتا ہے مگر وہ بمشکل ساٹھ فیصد خرچ ہو پاتا ہے۔ سینکڑوں ایسی اسکیمیں ہوتی ہیں جن کے نام پر صرف رقم مختص کی جاتی ہیں لیکن سال مکمل ہونے کے بعد نہ اسکیم کا پتہ ہوتا ہے اور نہ خرچ ہونے والی رقم کا پتہ لگتا ہے کہ بجٹ میں جو رقم مختص کی گئی تھی وہ رقم آخر کہاں کھو گئی ؟ حسب دستور نئے بجٹ میں بھی ایسی اسکیموں کا ذکر ہے اور سابقہ بجٹ میں بھی ذکر تھا سوال سادہ سا ہے کہ جب اسکیم شروع ہی نا ہو سکی تو پھر رقم کہاں گئی ؟
جیسا کہ نئے بسوں کی خریداری کے لئے تین ارب روپے جیسا کہ کراچی میں بس سروس شروع کرنے کے لئے رقم مختص کی گئی تھی۔ جیسا کہ سندھ میں لاتعداد نئے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کے لئے رقوم مختص کی گئی تھی جو کہ سال بیت جانے کے باوجود شروع ہی نہیں ہو سکے۔ تو پھر یہ سوال بنتا ہے کہ آخر وہ اربوں روپے کہاں خرچ ہوئے۔ سندھ کے صوبائی وزرا نے ہفتے کے روز سندھ اسمبلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ میں صوبہ سندھ کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کی گئی ہے سندھ کو اس کے حصے کی رقوم نہیں دی جا رہی اس وجہ سے سندھ کے منصوبے مکمل نہیں ہو رہے۔ صوبائی وزرا ناصر حسین شاہ اور سعید غنی نے الزام عائد کیا ہے کہ سندھ کے حصے کی رقوم سندھ ادا نہیں کی جا رہی اور سندھ کے ساتھ دشمنی کی جا رہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سندھ کے ترقیاتی منصوبے اب ایک کمپنی کے ذریعے مکمل کروائے جائیں گے دیگر صوبوں کے لئے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ نے الزام عائد کیا ہے کہ سندھ بجٹ میں ہر سال کرپشن کی جاتی ہے نئے مالی سال کا بجٹ لگ بھگ چودہ سو ارب روپے کا ہوگا۔ سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے دیگر ارکان اسمبلی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حلیم عادل شیخ نے کہا ہے کہ سندھ میں پانچ سال کے پروگرام میں سولہ سو ارب روپے کی بدعنوانی کی گئی ہے۔ وفاقی نے ایک ہزار ارب روپے کے منصوبے دیئے ہیں۔ یہ تو ہوگئی بجٹ پر سندھ حکومت اور سندھ کی حزب اختلاف کی باتیں لیکن بجٹ کے بارے میں اصل سوال تو اپنی جگہ پر موجود ہے کہ بجٹ میں آخر نیا کیا ہے ؟ یہ سوال جو ہر آدمی کا سوال ہے جو در اصل عوام کی بجٹ سے لا تعلقی کا سوال ہوتا ہے۔ جب بجٹ میں عوام کے لئے کچھ نہیں ہوگا تو پھر عوام کے پاس بھی لا تعلقی کے علاوہ اور کیا ہوگا؟