وہ پُر اسرار بندے
علامہ اقبال، جن کی شاعری صرف شاعری ہی نہیں ہوتی بلکہ ہر ہر شعر کے پیچھے ایک تاریخ ہوتی ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی، سیاسی، سماجی، تہذیبی اور تاریخی تمام سرحدوں اور اقدار کی بنیاد فکرِ اقبال پر ہے۔اس سے مراد، انسانیت کی فلاح و بہبود صرف اور صرف نظامِ شریعت میں ہے۔ علامہ اقبال کا ایک ایسے دور میں آنا جس دور میں مسلمانوں پر مغرب کا غلبہ تھا، مسلمانوں کیلئے ایک عظیم نعمت، اور کسی بہت بڑے تحفے سے کم نہیں۔ کیونکہ علامہ اقبال نے اپنی سوچ اور فکر سے اپنی شاعری کے ذریعے اسلام کے ان تاریخی واقعات کو بیان کیا جو ایمان کو تر و تازہ کردیتے ہیں۔ دراصل علامہ محمد اقبال محسنِ اسلام تھے وہ چاہتے تھے کہ ہر مسلمان ایمان کی تفسیر بن جائے۔ اسی لئے انہوں نے اپنی قوم کو ماضی کے نغمے سنائے تاکہ مسلمان اپنے ماضی کے بزرگوں کے عظیم کارناموں پر نظر ڈالیں اور انہیں اپنے مذہب یعنی اسلام اور آزادی کی قدر و قیمت کا احساس ہو۔لیکن آج کا نوجوان! کیا واقعی اقبال کا شاہین ہے؟ نہیں !علامہ اقبال نے ان تاریخی واقعات سے نوجوانوں کو شاہین بنانا چاہا۔ مگر آج کا نوجوان صرف اس لئے اقبال کے فکر و فن کا اندازہ نہیں لگا پاتا کیونکہ تاریخ کے حقائق ان نوجوانوں کو میسر ہی نہیں۔ تاریخ کے اوراق کبھی سیاسی رہنماؤں نے چھپائے تو کبھی آرمی افسروں نے اس کو تبدیل کیا۔لیکن خلافت، جس کی اکیسویں صدی میں بھی طلب ہے۔مسلمہ امہ جس کیلئے آج بھی ترستی کے۔
اسکی کئی وجوہات ہیں۔ خلافت نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد خلفاء راشدین نے قائم کی۔ اُس کے بعد مسلمانوں پر یہ لازم ہے کہ اگر خلافت قائم ہے تو اس کی حفاظت کی جائے اور اگر قائم نہیں تو اُسے قائم کیا جائے۔ خلافت کی سب سے اہم بات کہ اس میں روحانی، مذھبی اور سیاسی، مرکز ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ایران کے جنرل طعنہ دیتے ہیں کہ آپ یہاں ہم سے لڑنے کیوں آئے ہیں۔ ہماری تلواروں میں تو ایسا زھر لگا ہوا ہے جو اگر بدن کو لگے تو بدن گل سڑ جاتا ہے۔ تو حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ نے بولا تو پھر یہ زھر کی شیشی لاکے دو مجھے۔ حضرت خالد بن ولید کو وہ زھر کی شیشی لاکے دی جاتی ہے۔ آپ رضی اللّٰہ عنہ پڑھتے ہیں:بسم اللّٰہ الذی لا یضر مع اسمہ شیء فی الارض والا فی السماء وہو السمیع العلیم۔اور پی جاتے ہیں۔ زھر کی شیشی پھینک کے کہتے ہیں، دیکھو!ہوا مجھ پہ اس کا اثر۔
یہی وہ لوگ ہیں جن کو رب تعالیٰ نے ذوقِ خدائی سے نوازا تھا۔یہی غازی کے پراسرار بندے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ ایران کو فتح کرنے کیلئے جب دریا کے کنارے کھڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ دریا میں سیلاب آیا ہوا ہوتا ہے۔ دوسری طرف ایرانی مطمئن ہوتے ہیں کہ اب مسلمان فوج دریا پار کرکے اس طرف نہیں آسکتی۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ اپنے دائیں، بائیں جانب دیکھتے ہیں۔ پوری مسلمان قوم اپنے امیر کو کہتی ہے امیر المومنین جو حکم ہو آپ کا!لیکن حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ دریا کو حکم دیتے ہیں کہ، اے دریا ! حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی فوج آرہی ہے۔ خبردار ! کوئی نقصان نہ ہو۔پوری فوج دریاء میں اتر جاتی ہے۔آج بھی تاریخ گواہ ہے کہ ایرانی فوج وہاں سے یہ کہہ کر بھاگ گئی تھی کہ دیومتا دیومتا۔۔دیو آگئے دیو آگئے۔
حضرت خالد بن ولید اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہم کون تھے؟ یہ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کی تربیتِ یافتہ افواج تھیں اور جب امیر المومنین کا معیار یہ ہو تو پھر پوری قوم پر اس کے اثرات و برکات پھیلنا شروع ہوجاتے ہیں۔
کیسا معیار؟ ایک مرتبہ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کے آگے ایک شخص لایا گیا کہ امیر المومنین اس نے چوری کی ہے۔ شرعی سزا یہ تھی کہ چوری کی سزا پر ہاتھ کاٹ دیئے جاتے تھے۔ لیکن معیار یہ، سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ اس شخص سے پوچھتے ہیں کہ چوری کیوں کی ؟تو اس شخص نے بولا، بھوکا تھا۔کھانا چوری کیا ہے۔سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا وہ حکومت جو بھوکے کا پیٹ نہیں بھر سکتی وہ چوری پر اس کے ہاتھ بھی نہیں کاٹ سکتی۔
اور یہی خلافت کی شان ہے۔امیر کی برکت پوری قوم میں جاتی ہے۔