فیض، جو ایک عہد ہے
آج عظیم انقلابی شاعر، مفکر فیض احمد فیض کا 110 واں یوم ولادت منایا جارہا ہے۔ آپ کا شمار اُردو کے معتبر ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ آپ کا خاصہ یہ ہے کہ جس غزل گائیک نے آپ کے کلام کو گایا، اُس کو بے پناہ پذیرائی ملی۔ زیر نظر تحریر میں فیض احمد فیض کے حالاتِ زندگی کا اختصار کے ساتھ احاطہ کیا جارہا ہے۔ فیض احمد فیض 13 فروری 1911 کو کالاقادر، ضلع نارووال، پنجاب (برطانوی ہند) میں پیدا ہوئے۔ آپ کی شخصیت ہمہ جہت خوبیوں سے مرصع تھی۔ آپ استاد، فوجی افسر، صحافی، ٹریڈ یونینسٹ اور براڈ کاسٹر تھے، تاہم شاعری کے ذریعے جو مقام آپ کو ملا، وہ یقیناً قابل رشک گردانا جاسکتا ہے۔ آپ ادب کے نوبل انعام کے لیے نامزد ہوئے، تاہم قسمت نے یاوری نہ کی، البتہ لینن امن انعام پانے میں ضرور سرخرو رہے۔ آپ کا تعلق ایک متمول علمی گھرانے سے تھا۔ ابتدا سے ہی آپ کے گھر مقامی شعرا اور لکھاریوں کا اجتماع رہتا۔ آپ کے والد سلطان محمد خان بیرسٹر تھے، جنہوں نے عامر عبدالرحمان (شاہ افغانستان) کی بائیو گرافی بھی تصنیف کی تھی۔
فیض نے ابتدائی دینی تعلیم معروف عالم دین حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی سے حاصل کی۔ آپ نے مورے کالج سیالکوٹ سے انٹرمیڈیٹ کیا۔ 1926 میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں داخل ہوئے، جہاں شمس العلماء پروفیسر میر حسن اور پروفیسر پطرس بخاری کی رہبری میسر رہی۔ فیض نے بی اے آنرز عربی زبان میں کیا۔ 1932 میں اسی علمی ادارے سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ اسی برس پنجاب یونیورسٹی اورنٹیل کالج سے فرسٹ ڈویژن میں عربی میں ماسٹرز کیا۔ تعلیم کے دوران ہی آپ کی ملاقاتیں ایم این رائے اور مظفر احمد سے رہیں، ان کی بدولت ہی کمیونسٹ پارٹی کے رکن بنے۔ ایلس فیض سے 1941 میں رشتہئ ازدواج سے منسلک ہوئے جو برطانوی شہریت کی حامل ہونے کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی آف دی یونائیٹڈ کنگڈوم کی رکن بھی تھیں۔ اس جوڑے کی دو بیٹیاں سلیمہ ہاشمی اور منیزہ ہاشمی ہیں۔
1935 میں فیض محمڈن اینگلو اورنٹیل کالج امرتسر سے بہ حیثیت انگریزی لیکچرار منسلک ہوئے۔ 1937 میں لاہور آگئے، جہاں ہیلے کالج آف کامرس میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے لگے۔ فیض 1936 میں ادبی تحریک (PWM) سے وابستہ ہوئے اور اس کے پہلے سیکریٹری بنے، جس کے روح رواں معروف ترقی پسند رہنما سجاد ظہیر تھے۔ فیض 1938 میں ماہنامہ اردو جریدے ”ادب لطیف“ کے ایڈیٹر انچیف بنے اور 1946 تک اس سے وابستہ رہے۔ 1941 میں فیض کی پہلی ادبی کاوش ”نقش فریادی“ کی صورت منظرعام پر آئی۔ 1947 میں آزادی کے بعد پاکستان آرٹس کونسل سے منسلک ہوئے۔ معروف سوویت شاعر ایوگینی یوتوشینکو فیض کے اچھے دوست تھے۔ فیض کی شاعری نے بھارت اور سوویت یونین میں خاصی دھوم مچائی۔ فیض ملک عزیز میں سوشلزم کے فروغ کے شدت سے خواہش مند تھے۔
1942 میں فیض کو برٹش انڈین آرمی میں کمیشنڈ ملا۔ 18th رائل گڑھوال رائفلز میں سیکنڈ لیفٹیننٹ متعین ہوئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ آرمی میں ترقی کا سفر جاری رہا۔ 1945 میں قائم مقام لیفٹیننٹ کرنل بنائے گئے۔ 1947 میں پاکستان کے قیام پر آپ کی خدمات ملکی فوج کو میسر آئیں۔ اسی برس بھارت سے کشمیر تنازع پر ہونے والی جنگ کے بعد آپ نے آرمی سے استعفیٰ دے دیا۔
فیض بین الاقوامیت پر یقین رکھتے تھے۔ 1947 میں آپ اُس وقت کے موقر اخبار ”پاکستان ٹائمز“ کے ایڈیٹر بنے۔ 1948 میں پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن (PTUF) کے نائب صدر مقرر ہوئے۔ 1950 میں وزیراعظم لیاقت علی خان کے امریکا جانے والے وفد میں شامل تھے، جس نے سان فرانسسکو میں منعقدہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے اجلاس میں شرکت کی۔ 1948-50 میں فیض نے PTUF کے وفد کی جنیوا میں قیادت کی اور ورلڈ پیس کونسل کے فعال رکن بنے۔ ان کی وفات کے بعد روس کی حکومت نے انہیں ”اپنا شاعر“ قرار دیا۔ فیض کے کلام کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا، جن میں انگریزی اور روسی زبانیں سرفہرست ہیں۔ بلوچی زبان کے معروف ادیب میر گل خاں نصیر نے فیض کی کتاب ”سروادی سینا“ کو بلوچی زبان کے قالب میں ڈھالا۔ 20 نومبر 1984 کو اس عظیم انقلابی شاعر کی لاہور میں رحلت ہوئی۔