جعلی پیر و عامل ، معاشرتی ناسور!
جعلی پیر اور عامل بلاشبہ ہمارے معاشرے میں ناسور کی حیثیت رکھتے ہیں، جو سماج کو بُری طرح زک پہنچارہے ہیں۔ یہاں جعلی پیروں اور عاملوں نے وہ وہ سیاہ کارنامے سرانجام دیے ہیں کہ لکھتے ہوئے قلم کانپ جاتے ہیں، یہ عناصر کتنی ہی زندگیاں برباد کرچکے، کتنی ہی عصمتیں تار تار کرچکے، اس کا کوئی شمار نہیں، سادہ لوح لوگوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے کنگال کرکے رکھ دینے والے جعلی عامل آج بھی ہمارے معاشرے میں بڑی تعداد میں موجود ہیں، ملک کے ہر شہر کے ہر علاقے میں یہ اپنے اڈے بنائے بیٹھے ہوتے ہیں، سب سے افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان کی تمام تر سماج دشمن کارروائیوں کے باوجود ان کا قلمع قمع نہیں کیا جاسکا ہے۔
آئے روز یہ لوگ ایسی مذموم کارروائی کر گزرتے ہیں کہ جس پر ہر آنکھ اشک بار ہوجاتی اور ہر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کیسے کیسے قبیح اور سفّاک لوگ جعلی عامل اور پیروں کے لبادے اوڑھے ہمارے معاشرے کو بُری طرح زک پہنچارہے ہیں۔ یہ شیطان کی پیروی میں ہر حد عبور کرچکے ہیں۔ گزشتہ روز ایک ایسا ہی دل دہلانے والا واقعہ رونما ہوا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق مظفر گڑھ کے تھانہ محمود کوٹ کی حدود میں پیش آنے والے واقعے میں ایک جعلی پیر نے مبینہ طور پر علاج کے بہانے لڑکے کو دہکتے کوئلوں سے جھلسادیا، بعدازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
ایف آئی آر میں موقف اپنایا گیا کہ ان کا 14 سالہ بیٹا محمد ساجد گزشتہ 20 سے 25 روز سے بیمار تھا، جس کا علاج کرایا، تاہم اس کی طبیعت سنبھل نہ سکی اور پھر دوستوں کے مشورے پر ایک پیر عبدالغفار کے پاس اسے دم درود اور تعویذ کے لیے لے کر گئے، جہاں ساجد کو گردن سے پکڑ کر اس کا منہ دہکتے کوئلوں کے تھال میں ڈالا جاتا رہا۔ جب پیر سے ان کے بیٹے کے چہرہ جھلس جانے کی وجہ پوچھی تو کہا گیا کہ اس پر جنات کا سایہ ہے اور یہ دو سے تین گھنٹے میں ٹھیک ہوجائے گا۔ بعدازاں وہ اپنے بیٹے کو گھر لے آئے، جہاں ان کا بیٹا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ اُس سفاک شخص نے والدین سے اُن کا بیٹا چھین لیا۔
یہ انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔ سفّاکیت کی تمام حدیں عبور کردی گئیں۔ ایک معصوم کی زندگی چھین لی گئی۔ آخر کب تک جعلی پیر و عامل سادہ لوح لوگوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرتے رہیں گے۔ اور کتنی زندگیاں ان کی سفّاکیت اور درندگی کی بھینٹ چڑھیں گی۔ کب ان کا سماج سے خاتمہ ہوگا۔ کب حکومت و متعلقہ ادارے ایسے جعل سازوں کے قلع قمع کے لیے قدم اُٹھائیں گے۔ یہ تمام سوالات جواب کے متقاضی ہیں۔ معصوم ساجد تو واپس نہیں آسکتا، تاہم ایسے جعلی پیروں اور عاملوں کے خلاف سخت کریک ڈائون کرکے دیگر بچوں، بچیوں اور خواتین کو ان کے قہر سے ضرور بچایا جاسکتا ہے۔ ضروری ہے کہ جعلی عاملوں اور پیروں کے قلع قمع کا عزم مصمم کیا جائے اور ان کے خلاف ملک بھر میں سخت کریک ڈائون کا آغاز کیا جائے۔ سب سے بڑھ کر ان کارروائیوں کو اُس وقت تک جاری رہنا چاہیے، جب تک ملک کے طول و عرض سے ان کا مکمل خاتمہ نہیں ہوجاتا۔