راقم الحروف ایک بات سمجھتا ہے کہ کچھ بد اطوار اس مراثی کی مثال ضرور دیں گے جس کا ریشمی رومال کسی میلے کی گہما گہمی میں گم ہوا اور تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں ملا تو اس نے گاوں پہنچ کر بیان دیا کہ میلہ خاک تھا۔۔ بس میرا ریشمی رومال غایٔب کرنے کے لیۓ سارا کھیل رچایا گیا تھا۔
لیکن اس میں خالص سچائی ہے کہ اس جنگ سے کویٔ سات آٹھ سو دن پہلے مجھے ایک صبح کسی وجہ کے بغیراچانک اسی طرح سچی محبت ہوگئی۔ جیسے فی زمانہ نزلہ زکام ہو توکورونا ثابت ہوتا ہے۔ میرا یقین محکم تھا کہ میرے جیسا در نایاب بالاخر جس کو ملے گا اس کی خوش نصیبی کا کیا کہنا۔ لیکن یہ خوش فہمی اس وقت رفع ہوگئی جب مجھے انکار کر دیا گیا۔ بیان یہ جاری کیا گیا کہ ’’اس غیر ذمے دار افسانہ نگاری اور شاعری جیسے لاحاصل شوق اور مشاغل رکھنے والے ٹیڈی بوائے کو بیٹی دینے سے بہتر ہے کہ اسے کنویں میں دھکا دے دیا جائے۔‘‘ جی ہاں، میں ایک ٹیڈی بوائے بھی تھا، فیشن کی تنگ ترین بندوق کے غلاف جیسی پتلون اور ڈیڑھ فٹ لمبے چونچ دار جوتے پہنتا تھا۔ میرا احتجاجی مظاہرہ لاحاصل رہا، کیونکہ ظالم سماج نے انکار یا اقرار کا حق فریق ثانی کو دے رکھا ہے۔ لیکن اس بیانیہ سے میرے عزایم میں فرق نہیں پڑ سکتا تھا۔ فرہاد کی طرح میں نے جوئے شیر نکال کے اپنی مستقل مزاجی ثابت کرنے کا عمل جاری رکھا۔ سلامتی کونسل میں کشمیر کیس کی پیروی ایک مثال ہے۔ دوسری میں نے قایم کی۔ لیکن نتیجہ دونو کا ایک ہی رہا۔ جتنے وفود گیۓ ناکام رہے۔
سال یوں ہی گزر گیا، ۔پھر دوسرا۔ والد کو بسلسلہ ملازمت کراچی جانا پڑا۔ اب آزمائش کا نیا زمانہ شروع ہوا، جب پکی پکائی ملنی بند ہو گئی۔ اس وقت فاسٹ فوڈ یا تو جھونپڑی تنور کی دال روٹی تھی ورنہ سینڈوچ۔ ایک دن میں تین بار وہی سلائس اور یومیہ دس انڈوں کا آملیٹ کھا کے مٹکے کا کولڈ ڈرنک پیا۔ بس اس زمانے میں کسی وجہ کے بغیر سرحد پر جنگ شروع ہوگئی۔ مجھے لگتا ہے میری مستقل مزاجی کی شکست اس کا ایک مقصد تھی۔ دفتر کے باہر ایک جھگی ہوٹل کے ٹی وی پر میں نے اعلان جنگ سنا۔ رات کو دھرم پورہ والے مکان کی چھت پر سوتا تو واہگہ بارڈر کی طرف سے دو توپوں کی گھن گرج سنائی دیتی۔ ایک کا نام شیرنی تھا اور دوسری کا رانی۔ یہ دور مار توپیں تھیں۔ کبھی اِدھر کی ہوا چلتی تو رزق خاک ہوجانے والے اجسام کی بو سے متلی ہوتی۔ نیند اڑ جاتی اور تصور وہ دکھاتا جو دیکھا نہ تھا۔ دیکھا جا بھی نہیں سکتا تھا۔ صبح فجر کے وقت اٹھتا، ٹوپی لگا کے نماز کیلئے نکلتا تو وہ گلی کے آخری کونے والے مکان میں ایک نیم وا دروازے کے پیچھے منتظر ملتی۔ کہنے کو کیا تھا۔ دمشق کا قحط مشہور ہے، جس میں لوگ عشق بھی بھول گیۓ تھے۔ لاہور میں جنگ کا خوف تھا۔ میں کہتا، دیکھو، یہ ہوسکتا ہے کہ کسی روز مجھ پربم گرے۔ اعمال ہی ایسے ہیں میرے تو۔۔۔ میری یاد میں تم نہ آنسو بہانا۔ تم شادی کر لینا۔ اور وہ بھی کچھ روتی اور کہتی کہ بم گرے مجھ پر، پھر کوئی نمازی نظر آتا تو میں بھی مسجد کی طرف چل پڑتا چل پڑتا اور موقع پاتے ہی لوٹ آتا۔
دفتر کینٹ اسٹیشن کے عین مقابل تھا۔ بلیک آؤٹ کی راتوں میں شہر پر آسیب سایہ فگن رہتا۔ ہفتے میں ایک بار سیکیورٹی ڈیوٹی شروع ہوئی۔ رات کا گھپ اندھیرا اور کوئی کام بھی نہیں۔ لکڑی کی بنچ پر نیند کیسی۔ آفس کی بلڈنگ میں بھوت پھرتے دکھائی دیتے۔ پھر ایک رات سڑک پار کینٹ اسٹیشن پر ملٹری اسپیشل آئی۔ شامت اعمال کہ میں وہاں پہنچ گیا۔ جو دیکھا ایک ڈراونے خواب جیسا تھا جو آج بھی پیچھا نہیں چھوڑتا۔ شہید وں کے زندہ وجود اتار کے ایک قطار میں پلیٹ فارم پر رکھے جارہے تھے۔ زخمی کراہ رہے تھے۔ سب خون آلود۔ فوجی جوان ان کو اٹھا کے باہر ایمبولنس تک لے جاتے تھے۔ فضا میں خون کی بو پھیلی تو مجھے الٹی آئی اور میں وہیں گر گیا۔ ایک نوجوان کیپٹن ڈاکٹرنے مجھے دیکھا اور پانی پلایا۔ ’’کون ہو تم، یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ میں نے بڑی مشکل سے وضاحت کی۔ اسے ترس آیا وہ مجھے سڑک پار آفس تک لے آیا۔ ’’تم بلڈی سویلین، یہ سب نہیں برداشت کر سکتے، خون کی بو سے اعصاب کو سرجیکل شاک ہوتاہے۔ بڑے بڑے پہلوان چت ہو جاتے ہیں۔” میں کیا بولتا۔ صبح تک فرش پر پڑا رہا۔ واپسی پراسے بتایا کہ خون لگا کے شہیدوں میں شامل ہوتے ہوتے رہ گیا ہوں ورنہ تو ہوجاتی۔ کنواری بیوہ۔ یہ فلم کچھ عرصہ پہلے چلی تھی۔
اچانک ایک دن جنگ بند ہوگئ۔ سب نارمل ہو گیا۔ لوگ باتیں کرتے رہے جو وہ پہلے بھی کر رہے تھے۔ یہ موضوع مزے کا تھا۔ ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ اچانک اعلان ہوا کہ جو لوگ مفتوحہ بھارتی علاقے کھیم کرن جانا چاہیں جا سکتے ہیں۔ ایک دن کیلۓ کسی اجازت نامے پاسپورٹ ویزا کی ضرورت نہیں، لیکن سڑک ٹریفک کیلۓ بند رہے گی۔ اس سے صرف لاہور کے رہنے والے ہی مستفید ہوئے۔ میں نے یہ اعلان صبح آفس میں سنا۔ دو افراد کے پاس ویسپا اسکوٹر تھے۔ ان میں سے ایک کے پیچھے میں بیٹھ گیا۔ کچی زمین پر اڑتی مٹی دھول میں ہم نے کھیم کرن تک کی مسافت کیسے طے کی۔ اسی دن ایوب خان بھی وہاں پہنچا تھا۔ ایک دن دشمن کی سر زمین پر ہم نے کیسے گزارا، کیسے اس فتح نے اچانک میری شکست کو فتح میں بدل دیا۔ وہ یوم اقبال ہی تھا۔ 9 نومبر کو میں فتح کی ٹرافی کے ساتھ لاہور سے کراچی کیلیۓ نکلا۔ یہ سب الگ کہانی ہے جو میری سرگزشت میں شامل ہے۔
ابتدائی تعلیم راولپنڈی، معاشیات اور اپلائیڈ سائیکا لوجی میں ماسٹرز ہیں،متعدد ڈرامے لکھے، ریڈیو پاکستان پشاور سے منسلک رہے، کراچی میں 1971 تک شعبہ تدریس سے بھی وابستہ رہے، نصف صدی سے کہانیاں اور افسانے لکھ رہے ہیں، سماجی و نفسیاتی مسائل پر ان کی تحریریں مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہوتی ہیں۔ وائس آف سندھ کے لیے بھی خصوصی فیچرز بھی لکھ رہے ہیں