پتنگ باز سجنو، کچھ تو خیال کرو!

محمد راحیل وارثی

کورونا وائرس کی آمد کے ساتھ ہی طرز زندگی میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ وطن عزیز میں لاک ڈائون کو 40 روز سے اوپر ہوچکے ہیں۔ ہمارے عوام کی اکثریت ابتدا سے ہی لاک ڈائون کی پابندیوں کو خاطر میں لانے سے قاصر نظر آتی ہے۔ آنیاں جانیاں ویسے ہی جاری ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ ہوگئی ہیں، گویا بلاضرورت گھروں سے نکلنے کی مشق ستم خوب دہرائی جارہی ہے۔بہت سے کاروبار،بازار، ادارے وغیرہ بند ہونے سے اکثر لوگ اُوب چکے تھے ، اس لیے اُنہوں نے اپنی مصروفیات مختلف کھیلوں میں تلاش کی ہیں۔ کچھ کرکٹ کھیل رہے ہیں، بعض فٹ بال کھیل کر دل بہلارہے ہیں۔ کچھ ’’پتنگ باز سجن‘‘ جن میں 15 سال سے لے کر 50، 60 سال کے لوگ بھی شامل ہیں بھی اس موقع پر اپنے شوق کو بھرپور طریقے سے پورا کررہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کھیل وہی بہتر ہوتا ہے، جو جان لیوا نہ ہو اور اس سے مثبت پہلو نکلتا ہو۔ سب سے بڑھ کر یہ جسمانی صحت کو بہتر رکھنے میں ممدومعاون ہو۔

اُس کھیل کو کسی صورت مناسب نہیں گردانا جاسکتا ، جس سے کسی کی زیست کی ڈور کٹ جانے کا اندیشہ ہو۔ پتنگ بازی میں ہمارے ملک میں اتنی خطرناک ڈور کا استعمال کیا جاتا ہے کہ انسان کے جسم کے جس حصے پر وہ پھر جائے، اُسے کاٹ کے رکھ دیتی ہے۔ خصوصاً گلے پر پھرنے کی صورت میں شہہ رگ متاثر ہونے سے موت کی وادی میں چلے جانے کے خدشات کئی گنا بڑھ جاتے بلکہ بعض صورتوں میں موت یقینی ہوتی ہے۔

پتنگ بازی پر ملک بھر میں پابندی ہے کہ ماضی سے لے کر اب تک پتنگوں کی خونی ڈوریں کتنی ہی زندگیوں کے چراغ گل کرچکی ہےں۔پنجاب میں باقاعدہ اس کے لیے بسنت بہار کا میلہ سجتا تھا، جو انسانی زندگیوں کے تحفظ کی خاطر پچھلے کئی برسوں سے منعقد نہیں ہورہا کہ اس پر بھی پابندی عائد ہے۔دوسری طرف دیکھا جائے تو عام دنوں میں ہی پتنگ کی ڈور سے لوگوں خصوصاً بچوں کے جاں بحق ہونے کی خبریں وقتاً فوقتاً میڈےا پر آتی رہتی ہیں۔ اس کے باوجود کچھ پتنگ باز سجن اس کھیل سے تائب ہونے کے متعلق سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے، چاہے اُن کے شوق کی بھینٹ کتنی ہی انسانی زندگیاں کیوں نہ چڑھ جائیں۔ آخر ہمارا سماج کس سمت گامزن ہے۔

اب جب کہ لاک ڈائون کی کیفیت ہے تو پتنگ بازی میں خاصی شدّت دیکھنے میں آئی ہے۔ ہر شوقین فارغ ہے تو ایسے پتنگ باز سجنوں کی بڑی تعداد اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر خونی ڈور استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے سے پیچا لڑانے اور دوسروں کی پتنگوں کو کاٹ کر اپنی جیت کا جشن منانے میں محو ہے۔ پچھلے ایک ماہ میں پتنگ کی ڈور گلے پر پھرنے کے واقعات میں خاصا اضافہ ہوا ہے اور ہفتہ کو کراچی میں ایک معصوم زندگی اس کی بھینٹ بھی چڑھی ہے۔ جس کھیل سے دوسروں کی جانوں کے ضیاع کا اندیشہ ہو، اُس کھیل کو متواتر کھیلنا ہٹ دھرمی کے زمرے میں نہیں آئے گا تو اسے کس خانے میں فٹ کیا جائے۔

آخر پتنگ باز سجن اس ہٹ دھرمی سے کب تائب ہوں گے۔ کب ہوش کے ناخن لیں گے۔ کب انسانی زندگی کی وقعت ان پر آشکار ہوگی۔ کسی کا کھیل ہوا، کوئی زندگی سے گیا۔خدانخواستہ ایسی ہی کوئی خونی ڈور آپ کے گھر کے کسی فرد کے گلے پر پھر جائے۔ اس سے قبل پتنگ بازی سے تائب ہوجائیں کہ یہ سراسر خونی کھیل ہے۔ اس کے علاوہ ایسے کھیلوں میں طبع آزمائی کریں جن سے مثبت پہلو برآمد ہوتا ہو۔ ازحد ضروری ہے کہ محکمۂ پولیس بھی اس موقع پر ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پتنگ فروشوں اور اس کھیل کے کھیلنے والوں کے خلاف سخت کارروائیاں کرے۔ اُنہیں کسی طور بخشا نہ جائے۔ اس خونی کھیل کا مکمل خاتمہ یقینی بنایا جائے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔