مولانا طارق جمیل اور بونے اینکرز

مہرین ملک آدم

ہم پاکستانی روزانہ رات آٹھ بجے سے لے کر بارہ بجے تک مختلف نیوز چینلز پر مختلف پروگرامز میں روزانہ درجنوں دعوے سُنتے ہیں۔ کسی کو چڑیا خبر دیتی ہے، تو کسی کو موکل آکر خبر سنا جاتے ہیں تو کوئی اپنی روحانی طاقتوں کے ذریعے حقیقی خبر تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ دعوے، بڑی بڑی باتیں اور پروگرام کے دوران ہی مقدمے بٹھا کر ملزم کو مجرم ٹھہرا دیتے ہیں۔ یہ اینکر حضرات بولتے وقت کبھی ثبوت پیش نہیں کرتے، یہ حضرات ملزم کے نام اور خاندانوں تک کو بیچ میں لے آتے ہیں، چیخ چیخ کر اپنی بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کچھ دن بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ذرائع غلط تھے، ان کی بتائی ہوئی خبر بے بنیاد تھی۔ ان سب کے باوجود بھی یہ کبھی معافی نہیں مانگتے بلکہ اسے صحافت کا نام دے کر اس پر فخر کرتے ہیں۔

ایک طرف یہ کردار ہیں اور دوسری جانب مولانا طارق جمیل جیسی شخصیت ہیں جنہیں دنیا بھر میں سُنا اور مانا جاتا ہے۔ اردو زبان میں سب سے زیادہ سُنے جانے والے مقرر مولانا طارق جمیل ہی ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ اگر ہم کبھی ایسے جملے کہتے ہیں کہ فلاں ادارے والے چور ہیں، یا فلاں ادارے میں رشوت لی جاتی ہے اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہوتا کہ سب کے سب چور یا رشوت خور ہیں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اکثریت اس گناہ میں ملوث ہے۔ مولانا طارق جمیل صاحب کی بات کا اطلاق بھی اکثریت پر ہی ہوتا ہے، انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا، کسی کو ٹارگٹ نہیں کیا بلکہ ایک جنرل بات کی جو کہ وہ اکثر اپنے بیانات میں کرتے ہیں۔ لیکن وہ کہاوت ہے نا چور کی داڑھی میں تنکا، جو خود کو جھوٹا سمجھتا ہے اُس نے میڈیا میں طوفانِ بدتمیزی مچانا شروع کردیا، اسکرین پر آکر مولانا کے خلاف باقائدہ ایک منظم پروپیگنڈا کیا گیا۔ حامد میر اور محمد مالک نے مولانا سے معافی منگوا کر اپنی رعونت اور فرعونیت کا جو مظاہرہ کیا وہ سراسر ایک غیر اخلاقی عمل تھا۔

سب کو معلوم ہے مولانا صاحب ایک غیر سیاسی شخصیت ہیں، وہ ایک مبلغ ہیں وہ ہر ایک سے بلا تفریق رنگ و نسل و مذہب ملاقات کرتے ہیں، اُن کے لیے نیک دعائیں اور تمنا رکھتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حامد میر اور محمد مالک جیسے صحافیوں کو مولانا صاحب کو بلا کر اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے تھا کہ میڈیا میں واقعی بہت جھوٹ بولا جاتا ہے، مولانا صاحب ہم سب کو نصیحت کریں، واعظ کریں اور جھوٹ کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ لیکن ایسا کیونکر ہوگا؟ ایسا تو وہ لوگ کرتے ہیں جو اعلیٰ ظرف کے مالک ہوں، حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کرنے والے ہوں اور یہ حضرات تو بلیک میلر، انا پرست اور خود پسندی میں مبتلا ہیں یہ اس طرح کیوں کر کریں گے؟

مولانا نے معافی مانگ کر یہ ثابت کردیا کہ وہ اعلیٰ اخلاق اور ظرف رکھنے والی شخصیت ہیں، رعونت اور تکبر خدا کی ذات کو پسند نہیں وہ خوب انصاف کرنے والا ہے۔ سوشل میڈیا اٹھائیں ہر دوسرا شخص مولانا کی حمایت میں کھڑا ہے اور ان حضرات کو لعن طعن کر رہا ہے۔ صرف سوشل میڈیا کے صارفین نہیں بلکہ میڈیا کے اپنے لوگ اینکرز، تجزیہ نگار اور صحافی بھی مولانا صاحب کے ساتھ کھڑے ہوکر حامد میر اور محمد مالک کو یہ بتلا رہے ہیں کہ تم حضرات نے غلط کیا۔ عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے، عزت ایک وہ عظیم نعمت ہے جو خدا اپنے پسندیدہ بندوں کو عطا کرتا ہے۔ حامد میر اور محمد مالک کو بھی اللہ نے عزت دی، شہرت دی، لیکن وہ اس عزت کو اپنا کارنامہ تصور کرنے لگے ہیں اور آج ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ ایک عدالت تمھاری ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ایک عدالت اور عدل میرے رب کا ہے جو حتمی ہے، جس کا فیصلہ بدل نہیں سکتا، وہ جو کہہ دے وہ ہو جایا کرتا ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔