جس کی دنیا اُس کی مرضی
دنیا آج سے کچھ دن پہلے یکسر مختلف تھی۔ زندگی جینے کا ڈھنگ اور نظریہ بھی یکسر مختلف تھا۔ ہماری سوچ، ہمارا عمل، ہمارا اٹھنا، بیٹھنا، سونااور جاگنا بھی مختلف تھا۔
ہم اپنی زندگی کے بادشاہ تھے، جیسے چاہا ویسے زندگی کو گزارا۔ جہاں دل کیا وہاں چلے گئے۔ لیکن پچھلے کچھ دنوں سے زندگی بلکل بدل سی گئی ہے۔ ہم ایسے قیدی بن گئے ہیں جس کا جرم اُسے معلوم نہیں۔ ہم اس طرح سے سمٹ کر چار دیواری میں قید ہوگئے ہیں جیسے کوئی غلام کسی آقا کی قید میں ہوتا ہے۔
یہ ان دیکھا خوف اور ڈر ہمیں کیا سبق دیتا ہے؟ یہ سب کچھ پاس ہونے کے باوجود بھی کچھ نا ہونے کا احساس ہمیں کس بات کی یاد دلاتا ہے؟ زندگی کی ریل جو اچانک پٹری سے اتر گئی ہے، وہ ہمیں کیا پیغام دیتی ہے؟
نا جانے زندگی میں کتنے حادثات و واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اپنے بچھڑ جاتے ہیں، زندگی روٹھ جاتی ہے، ناقابلِ تلافی نقصانات کی بھرمار ہوتی ہے لیکن پھر بھی ہم نہیں سمجھتے کہ ہم سب فقط ایک مٹی کا جسم ہیں۔ اصل طاقت و قوت تو اُس ربِ کریم کے پاس ہے جو کہتا ہے:
"اے ابنِ آدم ایک تیری چاہت ہے، ایک میری چاہت ہے۔ ہوگا وہی جو میری چاہت ہے، اگر تو راضی ہوجائے اُس پر جو میری چاہت ہے، تو میں وہ کردوں گا جو تیری چاہت ہے۔ اگر تو راضی نہ ہوا اُس پر جو میری چاہت ہے تو میں تجھے تھکا دوں گا اُس پر جو تیری چاہت ہے اور آخر ہوگا تو وہی جو میری چاہت ہے۔”
یہ زمین، یہ آسمان، یہ چاند، یہ سورج، یہ صحرا، یہ دریا، یہ پہاڑ، یہ ہوائیں، یہ دن، یہ رات، یہ جسم، یہ جان اور یہ سارے جہان فقط اللہ کے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں سب کچھ وہی ہے۔
وہی اول ہے، وہی آخر ہے، وہی ظاہر ہے، وہی باطن ہے، وہی ناظر ہے، وہی غائب، وہی عقل ہے، وہی شعور ہے، وہی علم ہے، وہی عمل ہے، وہی دنیا ہے اور وہی آخرت ہے۔
دنیا کو اُس نے بتا دیا کہ تم میرے محتاج تھے اور رہو گے۔ کورونا نے ان سب طاقتوں کے پول کھول دیے جو زمینی خدا بنے بیٹھے تھے۔ جو سمجھتے تھے کہ ہمارے ایک اشارے پر قوموں کی تقدیریں پلٹ جایا کرتی ہیں۔
محترم قارئین، دنیا کتنی ہی ترقی کرلے، دنیا کتنی ہی ایڈوانس ہوجائے، میرا رب اُسے ایک چھوٹی سی نہ نظر آنے والی مخلوق سے اس قدر خوف میں مبتلا کر سکتا ہے کہ لوگ خود اپنے ہی قیدی بن کر رہ جاتے ہیں۔ طاقتیں بے شک تمھاری ہیں پر نہ دکھنے والی لازوال طاقت صرف اور صرف اللہ کی ہے۔