جسٹس منیر نے پاکستان توڑنے کا بیج بویا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
اسلام آباد: عدالت عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ 1971 میں پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط عدالتی فیصلہ تھا۔
اسلام آباد میں آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ دسمبر 1971 میں پاکستان اچانک نہیں ٹوٹا بلکہ اس کے بیج بوئے گئے تھے، میری رائے میں فیڈرل کورٹ کے جسٹس منیر نے پاکستان توڑنے کا بیج بویا، پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط عدالتی فیصلہ تھا، جو زہریلا بیج بویا گیا وہ پروان چڑھا اور 1971 میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہم جو کام آج کرتے ہیں اس کے اثرات صدیوں بعد تک ہوتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ووٹ سے سزائے موت دی گئی، اگر آپ کو تاریخ نہیں دہرانی تو تاریخ سے سیکھیں، تاریخ نے ہمیں سکھانے کے لیے کئی مرتبہ خود کو دہرایا، 1958، 1977، 1993، 1993، 1999 میں بھی تاریخ پکارتی رہی کہ سیکھو، تاریخ ہمیں سات سبق دے چکی ہے اور کتنی بار سکھائے گی، آئین پاکستان جیسا تحفہ پھر نہیں ملے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈکٹیٹر آنے کے کچھ عرصے بعد سمجھتا ہے کہ وہ تو اصل میں جمہوریت پسند ہے، ڈکٹیٹر ریفرنڈم کراتا ہے اور نتائج 98 فیصد تک پہنچ جاتے ہیں، ریفرنڈم کے برعکس پاکستان میں زور شور سے ہونے والے الیکشن کے نتائج کبھی 60 فیصد سے زیادہ نہیں آتے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اختلافات کے باوجود حکومت اور پی این اے ایک میز پر بیٹھے اور مسائل بھی حل کرلیے تھے، مگر 4 جولائی 77 میں ایک شخص مسلط ہوا اور قبضہ کرلیا، 12 اکتوبر 1999 میں ایک اور سرکاری ملازم نے سمجھا کہ اس سے بہتر کوئی نہیں، مشرف کا دوسرا وار 3 نومبر 2007 میں تھا جب ایمرجنسی نافذ کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ آئین میں 184 تین کا لفظ استعمال ہوا ہے سوموٹو کا نہیں، آرٹیکل 184 تین سپریم کورٹ کو شرائط کے ساتھ اختیار دیتا ہے کہ بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے کوئی کام کیا جائے، 184 تین کی شق ان مظلوموں کے لیے رکھی گئی تھی جو عدالت تو دُور وکیل تک نہیں پہنچ سکتے تھے،اس شق کا پاکستان میں بھرپور استعمال ہوا، کئی مرتبہ اچھی طرح اور کئی مرتبہ بہت بری طرح۔
قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ 184 تین کو کسی فرد کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا، اگر اس شق کا استعمال مفاد عامہ میں نہ ہو تو اسے استعمال نہیں کیا جاسکتا، لازم ہے کہ اس شق کو استعمال میں لاتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم اٹھایا جائے، میری رائے کے مطابق 184 تین کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے، میرے دوستوں کی رائے ہے کہ سوموٹو کا اختیار چیف جسٹس کا ہے، ایک رائے یہ بھی ہے کہ 184 تین کا استعمال ہو تو سپریم کورٹ کے تمام ججز اسے سنیں، شق بتادیں، میری اصلاح ہوجائے گی میں آپ کے نظریہ پر چل سکوں گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ میں ہمیشہ مستقبل کی طرف دیکھتا ہوں، آئین کا بڑا حوصلہ ہے جس پر کئی بار وار کیے گئے لیکن وہ آج بھی ویسے ہی کھڑا ہے، بڑے وکیلوں کے دلوں میں آئین کی اتنی محبت نہیں کیونکہ ان کی جیبوں میں فیسیں جاتی ہیں، اگر فیصلہ غلط ہے تو غلط رہے گا، چاہے اکثریت کا فیصلہ ہو، نمبر گیم سے جھوٹ سچ میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم پر آئین کا زیادہ بوجھ ہے، ہم نے حلف اٹھایا ہے کہ آئین کا دفاع اور حفاظت کریں گے، جب تک لوگ آئین کو نہیں سمجھیں گے اس کی قدر نہیں ہوگی، ظالم کہتا ہے میری مرضی، آئین کہتا ہے لوگوں کی مرضی، زندہ معاشرے میں اختلاف رائے ہوتا ہے، سب تائید میں سرہلانا شروع کردیں تو یہ بات بادشاہت اور آمریت ہوجائے گی، طرح طرح کے آرڈر جاری ہوتے ہیں، پتا نہیں کسے بے وقوف بنارہے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آئین میں آرٹیکل 58 ٹوبی کی شق ڈالی کہ جب دل کرے منتخب حکومت کو برطرف کرسکیں، 58 ٹوبی کا استعمال بھی کیا اور خود ہی کی منتخب جونیجو حکومت ختم کردی، 18 ویں ترمیم میں 58 ٹو بی کو ہٹایا، صوبوں کو اختیارات دیے گئے، سب سے بری چیز تکبر اور اس کے بعد انا ہے، آپ کسی عہدے پر بیٹھے ہیں تو انا نہیں ہونی چاہیے، جس دن مجھ میں انا آگئی میں جج نہیں رہوں گا، اختلاف سے انا کا تعلق نہیں ہے۔