مت سمجھو ہم نے بھلا دیا "سانحہ اے پی ایس”
پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن جو ہر سال 16 دسمبر کو ان معصوم اور بے گناہ بچوں کی یاد دلاتا ہے جو گھر سے اسکول تعلیم حاصل کرنے گئے تھے وہ نہیں جانتے تھے کہ انکی کتابیں اور انکا جسم لہو میں ڈوب جائے گا۔ مجھے آج بھی سانحہ آرمی پبلک کا دن یاد ہے جب اچانک ٹی وی کے ذریعے اتنی بڑی دہشت گردی کا پتہ چلا تو پورے پاکستان میں شہداء کیلئے شمعیں روشن کی گئی میں نے کراچی ملیر کے آرمی پبلک اسکول کے تعزیتی پروگرام میں شرکت کر کے طالبعلموں کے ساتھ ناصرف شمعیں روشن کیں بلکہ بحیثیت ایک نجی ٹی وی چینل اینکر کے میں نے ان تمام معصوموں کے درد کی داستان بھی ایک پروگرام کے ذریعے کور کی جو سانحہ پشاور کے ان معصوم بچوں کے رشتہ دار تھے جو سانحے میں شہید ہو چکے تھے اتنے بڑے سانحے کے باوجود اور اپنوں کو کھو دینے کے درد کے بعد بھی آرمی پبلک اسکول کے بچوں کا جوش و جذبہ دیکھنے والا تھا جس نے میرے دل کو چیر دیا اور مجھ سمیت ہر اس انسان کی آنکھیں اشکبار کر دیں جس نے وہ درد محسوس کیا اور چھ سال گزر جانے کے باوجود میرا دل ہر سال سانحہ اے پی ایس کے شہداء کیلئے اسی طرح روتا ہے آنکھوں میں درد ایسا تازہ ہوتا ہے کہ لگتا ہے ابھی کی بات ہو۔16 دسمبر 2014 کو صبح دس بجے سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کا لرزہ خیز واقعہ پیش آیا جس نے انسانیت کو شرمندہ کر دیا یہ پاکستانی تاریخ کا اتنا درد ناک دہشت گردانہ حملہ تھا، جس نے نہ جانے کتنے دہشت گردانہ حملوں کو پیچھے چھوڑ دیا 16 دسمبر 2014ء کو تحریک طالبان پاکستان کے 7 دہشت گرد ایف سی (فرنٹیئر کور) کے لباس میں ملبوس پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں پچھلی طرف سے داخل ہوئے اور ہال میں جا کر اندھا دھند فائرنگ کی اس کے بعد کمروں کا رخ کیا اور وہاں پر بچوں کو گولیاں مار کر شہید کیا 9 اساتذہ، 3 فوجی جوانوں کو ملا کر کل 144 شہادتیں اور 113سے زائد افراد اس سانحے میں زخمی ہوئے۔ شہید ہونے والے 132 بچوں کی عمریں 9 سے 18 سال کے درمیان تھیں پاکستانی آرمی نے 950 بچوں و اساتذہ کو اسکول سے باحفاظت نکالا۔ایک دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جبکہ 6 مارے گئے۔واقعے کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کی اور تنظیم کے مرکزی ترجمان محمد عمر خراسانی نے بی بی سی اردو کے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے چھ حملہ آور اسکول میں داخل ہوئے اس نے یہ بھی کہا کہ یہ کارروائی شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن ضربِ عضب اور خیبر ایجنسی میں جاری آپریشن خیبر ون کے جواب میں ہے۔حکومت پاکستان نے سانحہ کے بعد تین روز تک سوگ کا اعلان کیا اور اس دوران پاکستانی پرچم سرنگوں رہا۔پاکستان میں ہر سال اس دن کی مناسبت سے ملک بھر میں خصوصی دعائیہ تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے جس میں شہداء کی روح کو ایصال ثواب کے لئے فاتحہ اور قرآن خوانی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔دسمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی سانحہ 16 دسمبر کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، جب انسانیت کے دشمن سفاک دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور کو مقتل گاہ میں بدل دیا تھا اور 149 گھروں میں صف ماتم بچھا دیا تھا۔ سانحہ اے پی ایس نے ملک سمیت دنیا بھر کے کروڑوں انسانوں کی آنکھوں کو نم کر دیا شہداء میں اسٹاف ممبرز اور طلبہ سمیت ایک پرنسپل بھی تھیں جنہوں نے سانحہ میں شہادت حاصل کی 6 سال پورے ہو جانے کے باوجود سانحہ اے پی ایس کا غم تازہ ہے اور ہر سال 16 دسمبر کو شہداء کی برسی کے موقع پر بچھڑنے والوں کا غم تازہ ہو جاتا ہے۔ سانحہ آرمی پبلک نے نہ جانے کرنے گھر اجاڑ دیئے والدین ابھی تک سانحے کے نفسیاتی اثرات سے نہیں نکل سکے۔سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے شہداء کے سوگواران و لواحقین انصاف کے طلبگار ہیں ریاست کا اولین فرض ہے کہ عوام کو انصاف دیا جائے جبکہ سانحہ آرمی پبلک تو ایک کھلی دہشت گردی ہے ایک ایسا درد جو کوئی پاکستانی کبھی نہیں بھول سکتا معصوم پھول معصوم بچے جو صرف تعلیم حاصل کرنے گئے تھے انکے بھی خواب تھے انکو جینا تھا انکے والدین اور بہن بھائیوں نے انکے مستقبل کے نہ جانے کتنے خواب دیکھے ہونگے مگر کون جانتا تھا کہ 16 دسمبر 2014 کو اسکول جانے والے بچے واپس گھر زندہ نہیں لوٹیں گے ۔سانحہ اے پی ایس کے شہید بچوں کے والدین کے آنسو ان چھ برسوں میں خشک ہو چکے ہیں اس سال چھٹی برسی کورونا وائرس کی عالمی وباء کے دوران آنے کے باوجود پاکستان میں سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کی یاد میں مختلف اجتماعات منعقد کیے گئے ہیں جبکہ ہر سال کی طرح اس سال بھی شہداء کے والدین اپنے جگر گوشوں کی یاد میں شمعیں روشن کریں گے۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر سانحہ اے پی ایس کی تحقیقات کیلئے قائم ہونے والے جوڈیشنل انکوائری کمیشن کی رہورٹ کو عام کر دیا گیا اور اس رپورٹ میں سانحے کو سیکیورٹی کی ناکامی قرار دیا گیا۔دوران سماعت شہداء کے بچوں کے والدین نے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک ٹارگٹ کلنگ ہے ساری عمر نیچے والوں کا حساب ہوا اس واقعے میں اوپر والے لوگوں کو بھی پکڑا جائے جبکہ چیف جسٹس گلزار احمد نے اس پر کہا کہ یہ کیس ہم چلائیں گے ملک کا المیہ ہے کہ حادثے کے بعد صرف چھوٹے اہلکاروں پر ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے لیکن اب اس روایت کو ختم کرنا ہو گا سزا اوپر سے شروع کرنا ہوگی۔ میں حکومت پاکستان، چیف جسٹس آف پاکستان اور اٹارنی جنرل سمیت تمام ذمہ داران سے اپیل کرتی ہوں کہ سانحہ آرمی پبلک کے سفاک دہشت گردوں کو سزا دی جائے اور سیکیورٹی کی نا اہلی کا ایکشن لیا جائے جس میں عوام محفوظ نہیں۔