پنڈورا پیپرز کے نتائج کیا نکلیں گے؟
پانامہ پیپرز کا معاملہ سامنے آیا تو وزیراعظم عمران خان نے ان تمام افراد کو سزا دلانے کی ٹھان لی جن کا نام اس تحقیقاتی رپورٹ میں شامل ہے۔ اگر ملکی قانون کو دیکھا جائے تو تمام آف شور کمپنیاں بنانے والے مجرم نہیں ہوسکتے۔ اگر اجازت لے کر کسی اور ملک میں کاروبار کیا جائے تو ملکی قانون اس کی اجازت دیتا ہے، ہاں اگر بے نامی جائیداد یا کمپنیاں قائم کی جائیں تو اسے جرم تصور کیا جائے گا۔
وزیراعظم کا اس وقت موقف یہ تھا کہ ملک کا پیسہ باہر لے جانے والوں کو سزا دی جائے اور پاکستان کا پیسہ پاکستان میں ہیو استعمال ہو اور یہیں اس سے کاروبار کیا جائے، تاکہ ملکی خزانے کو فائدہ ہو۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کو کرنا پڑا۔ مریم بی بی بلاخوف ٹیلی وژن پر کہا کرتیں کہ میری برطانیہ تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں، اور پھر تحقیقات کے بعد ان کی غربت سب کے سامنے آگئی۔ اس دور سے میاں صاحب کی شروع ہونے والی مشکلا ت تھم نہ سکیں اور میاں صاحب نا اہل بھی ہوئے اور انہیں ملک سے باہر بھی جانا پڑا۔۔۔ اب اسے بیماری کا نام دیں یا کوئی اور۔
پانامہ پیپرز کے بعد پنڈورا پیپرز بھی میدان میں آگئے ہیں۔ اس میں سات سو سے زائد پاکستانیوں کے نام ہیں۔ اپوززیشن کو پوری امید تھی کہ اس میں وزیراعظم عمران خان کا نام بھی شامل ہوگا، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا، ہاں یہ ضرور ہے کہ عمران خان کے کئی ساتھیوں کے نام اس میں شامل ہیں۔ اب یہاں وزیراعظم کا اسٹینڈ کیا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے حسبِ روایت بیان جاری کردیا ہے کہ حکومت پینڈورا لیکس میں آنے والے ناموں کی تحقیقات کرے گی۔ وزیراعظم کا یہ بیان شاید عمل پذیر نہ ہوسکے کیوں کہ وہ ماضی میں بھی وہ ایسے بیان جاری کرتے رہے ہیں ان کے اکثر بیان صرف بیان ہی ثابت ہوئے ہیں ۔وزیراعظم کے قریبی ساتھی زلفی بخاری کا بھی نام ان پیپرز میں ہے، رنگ روڈ اسکینڈل میں بھی ان کا نام تھا اس کے باعث وہ عوامی دباو کی وجہ سے مستعفی ہوگئے۔
یہاں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ پنڈورا پیپرز کو اگر سچ تسلیم کیا جائے یا پھر تحقیقات کے بعد یہ درست ثابت ہوں تو سیاستدانوں کے ساتھ دیگر بھی کئی طبقات نے کرپشن کے سو ئمنگ پول میں غسل کیا ہوا ہے، گویا پاکستان کو لوٹنے یا اپنا پیسہ باہر لے جاکر محفوظ کرنے اور عوام کو ماموں بنانے میں کسی ایک طبقے کا کردار نہیں، بلکہ سب نے ہی اپنا حق ادا کیا اور شریف بس وہ رہا جسے موقع نہ ملا۔ میڈیا مالکان، اہم اداروں اور سیاستدانوں کے ناموں سے بھری اس تحقیقاتی رپورٹ میں سب سے زیادہ حکومتی جماعت اور پیپلز پارٹی کے لوگوں کے شامل ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ن لیگ کے لوگ کرپشن میں کم ہی ملوث ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے مخلص ساتھی جنہوں نے سیاست کا آغاز تحریک انصاف سے کیا یا ان کا تعلق تعلیم، فن یا کسی اور شعبے سے ہے، وہ بھی کرپشن سے دور ہیں، لیکن ان کے ارد گرد موجود کئی افراد ویسے ہی ہیں جیسے اس رپورٹ کے مطابق یا عمران خان کے بیانات کے مطابق پیپلز پارٹی کے ہیں۔ عمران خان نے بیانات سے ہٹ کر اس بار اگر ان افراد کو سزا دلانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو سیاسی طور پر تحریک انصاف کو شدید نقصان ہوگا۔
وزیر اعظم کے بعد یہاں ذمہ داری عدلیہ کی بھی ہے کہ وہ تمام معاملات کو دیکھے اور نوٹس لے۔ جن افراد کے نام اس فہرست میں شامل ہیں انہیں بلایا جائے، تحقیقات کی جائیں۔ اگر واقعی یہ افراد ملک کو نقصان پہنچانے یا منی لانڈرنگ میں شامل ہیں تو انہیں سزا دی جائے۔ ماضی میں جب پانامہ پیپرز کا معاملہ سامنے آیا تو امیر جماعت اسلامی سراج الحق عدالت پہنچ گئے تھے اور میاں نواز شریف کو سزا دلوائی تھی۔ جماعت اسلامی کے انتہائی اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی نے ایک بار پھر تیاری شروع کردی ہے۔ جماعت اسلامی پنڈورا پیپرز کو بھی عدالت لے کر جائے گی۔ اس بار جماعت اسلامی کو بھی یہ خیال رکھنا ہوگا کہ صرف حکومتی افراد کو سزا دلانے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ اس جرم میں ملوث ہر شخص کو سزا دلانے کے لئے کام کیا جائے۔
مزے دار بات یہ ہے کہ ملک کی مذہبی جماعتیں یہاں بھی بچ گئیں۔ کسی مذہبی جماعت کے سربراہ کا نام آف شور کمپنیوں کے ساتھ نہ جڑا اور یہ اعزاز قوم پرست جماعتوں کو بھی حاصل رہا۔ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علما
مزے دار بات یہ ہے کہ ملک کی مذہبی جماعتیں یہاں بھی بچ گئیں۔ کسی مذہبی جماعت کے سربراہ کا نام آف شور کمپنیوں کے ساتھ نہ جڑا اور یہ اعزاز قوم پرست جماعتوں کو بھی حاصل رہا۔ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علما
مزے دار بات یہ ہے کہ ملک کی مذہبی جماعتیں یہاں بھی بچ گئیں۔ کسی مذہبی جماعت کے سربراہ کا نام آف شور کمپنیوں کے ساتھ نہ جڑا اور یہ اعزاز قوم پرست جماعتوں کو بھی حاصل رہا۔ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علما
مزے دار بات یہ ہے کہ ملک کی مذہبی جماعتیں یہاں بھی بچ گئیں۔ کسی مذہبی جماعت کے سربراہ کا نام آف شور کمپنیوں کے ساتھ نہ جڑا اور یہ اعزاز قوم پرست جماعتوں کو بھی حاصل رہا۔ جماعت اسلامی، جمعیت علمائ اسلام،جمعیت علمائے پاکستان، پاکستان راہ حق پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، عوامی تحریک، ترقی پسند پارٹی، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی سمیت تمام مذہبی اور قوم پرست جماعتیں اس اسکینڈل سے محفوظ رہیں اب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ انہیں صادق و امین اور محب وطن کہا جائے یا پھر الزامات ہی عائد کئے جائیں ۔خیر اب وقت ہے انتظار کا انتظار کریں اور حالات کا جائزہ لیں کہ عدلیہ،حکومت اور جماعت اسلامی اس بار کرپشن میں ملوث افراد کو سزا دلانے کیلئے کیا کردار ادا کرتی ہے۔
پاکستان، پاکستان راہ حق پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، عوامی تحریک، ترقی پسند پارٹی، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی سمیت تمام مذہبی اور قوم پرست جماعتیں اس اسکینڈل سے محفوظ رہیں اب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ انہیں صادق و امین اور محب وطن کہا جائے یا پھر الزامات ہی عائد کئے جائیں۔ خیر اب وقت ہے انتظار کا، انتظار کریں اور حالات کا جائزہ لیں کہ عدلیہ،حکومت اور جماعت اسلامی اس بار کرپشن میں ملوث افراد کو سزا دلانے کیلئے کیا کردار ادا کرتی ہے۔
پاکستان،پاکستان راہ حق پارٹی،عوامی نیشنل پارٹی،عوامی تحریک،ترقی پسند پارٹی، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی سمیت تمام مذہبی اور قوم پرست جماعتیں اس اسکینڈل سے محفوظ رہیں۔ اب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ انہیں صادق و امین اور محب وطن کہا جائے یا پھر الزامات ہی عائد کئے جائیں۔ خیر اب وقت ہے انتظار کا، انتظار کریں اور حالات کا جائزہ لیں کہ عدلیہ، حکومت اور جماعت اسلامی اس بار کرپشن میں ملوث افراد کو سزا دلانے کیلئے کیا کردار ادا کرتے ہیں۔