سندھ یونیورسٹی، علم و ادب سیاست اور تاریخ کا رومانس
سندھی زبان کے انقلابی شاعر حلیم باغی کی نظم ارے شہر جاناں آج بھی سندھ کی نوجوان نسل میں اسی طرح مشہور ہے جس طرح آدھی صدی قبل مشہور تھی۔ تھرکا راگی شفیع فقیر جب اس نظم کو گاتا ہے تو محفل می رقصم ہوجاتی ہے۔
سندھ یونیورسٹی کے قیام کا خاکہ تو قیام پاکستان سے کچھ سال قبل بن چکا تھا جب بمبئی پریزیڈنسی سے الگ ہوکر سندھ کی آئین ساز اسمبلی تشکیل دی گئی تھی، لیکن قیام پاکستان کے ساتھ ہی پاکستان کی پہلی یونیورسٹی کو جامعہ سندھ کا نام دیا گیا جو کہ کراچی میں بنائی گئی تھی جو کہ 1955 کے بعد کراچی سے حیدر آباد منتقل ہوئی۔ حیدر آباد شہر کے وسط میں جامعہ سندھ کا اولڈ کیمپس آج بھی موجود ہے۔ ساٹھ کی دہائی تک سندھ کی طلبہ تحریکوں سے لے کر علمی ادبی تحریکوں اور سرگرمیوں کا مرکز اولڈ کیمپس ہی رہا۔ بعد میں جامعہ سندھ کو جامشورو کے ایک وسیع رقبے پر تعمیر کیا گیا۔ مہران انجنیئرنگ کالج اور لیاقت میڈیکل کالیج بھی ابتدائی دنوں میں جامعہ سندھ سے ملحق تھے۔
جب سندھ کے طلبہ کی ایک تحریک شروع ہوئی جو بعد میں چار مارچ کی تحریک کے نام سے منسوب ہوئی۔ 1967 میں اسٹوڈنٹس یونین نے وائس چانسلر کے تبادلے کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا۔ یہ جنرل ایوب کا زمانہ تھا اور ملک میں ون یونٹ نافذ تھا۔ ایک طاقت ور بیوروکریٹ مسرور حسن کمشنر حیدر آباد تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مسرور حسن صدر جنرل ایوب کا خاص آدمی تھا. تب جامعات کا کنٹرول بھی کمشنرز کے پاس ہوتا تھا۔ جامعہ سندھ کا وائس چانسلر سندھ کے پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ حسن علی عبدالرحمان (سینیٹر شیری رحمان کے والد) کے خلاف کمشنر مسرور حسن مسلسل رپورٹس کرتا رہا اور بلا آخر انہیں وائس چانسلر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اس کے خلاف یونیورسٹی کے طلبہ مشتعل ہوگئے اور 4 مارچ 1967 کو اسٹونٹس یونین کی اپیل پر طلبہ نے جام شورو سے بسوں میں سوار ہوکر کمشنر آفس کا رخ کیا، لیکن حیدر آباد پہنچنے سے قبل ہی موجودہ راجپوتانہ اسپتال کے سامنے پولیس نے رکاوٹیں لگا کر طلبہ کی ریلی پر فائرنگ کردی۔ کئی طلبہ زخمی ہوئے۔ پولیس نے اسٹوڈنٹس یونین کے رہنماؤں یوسف لغاری، جام ساقی، مسعود نورانی، یوسف تالپور اور دیگر کو گرفتار کرلیا۔
اس واقعے کے خلاف سندھ بھر میں احتجاج ہوا۔ جنرل ایوب اور ون یونٹ کے نفاذ کے خلاف کے نفرت بڑھ گئی۔ طلبہ کی جدوجہد سے سندھ میں اینٹی ون یونٹ محاذ بنا۔ معروف صحافی اور سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق رہنما سہیل سانگی بتاتے ہیں کہ ذوالفقارعلی بھٹو دورسے قبل جامعہ سندھ کی اسٹوڈنٹس یونینز کی بڑی بڑی تقاریب ہوتی تھیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ اور طالبات شریک ہوتے تھے۔ سالانہ لطیف ڈے تو ایک بھرپور میلہ ہوتا تھا۔ تب سیاسی پارٹیوں سے وابستہ طلبہ تنظیموں کا اتنا زور نہیں تھا۔ کیونکہ جیے سندھ اور پیپلز پارٹی کی ذیلی تنظیموں کی سیاست نے ستر کی دہائی میں زور پکڑا۔ اس سے قبل طلبہ یونینوں کا دور تھا۔ ہر ڈپارٹمنٹ میں طلبہ یونین کے الیکشن میں طالب عملوں کی بھرپور شرکت ہوتی تھی۔ لیکن ستر کی دہائی میں سندھ کی جامعات میں اسلحے کی سیاست کو داخل کیا گیا۔
جامعہ سندھ کے اساتذہ اور طلبہ کی فہرست میں علم و ادب، شاعری اور فن و آرٹ سے وابستہ بڑی شخصیات کے نام شامل ہیں۔ کس کس کا ذکر کیا جائے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور مخدوم امین فہیم سے لے کر مرتضی جتوئی، کنور خالد یونس، مولانا اسداللہ بھٹو، اے ڈی خواجہ، لیاقت جتوئی، میر ہزار خان کھوسو، نذیر عباسی، جام ساقی، رانا بھگوان داس اور ایاز لطیف پلیجو تک کے اہم کردار ہوں یا پھر فہمیدہ ریاض، شیخ ایاز، شفیع محمد شاہ، غلام علی الانا، ڈاکٹر مبارک علی سے لے کر نئے دور کے شاعر حسن درس، اسحاق سمیجو، امر سندھو، عرفانہ ملاح تک سب ہی سندھ یونیورسٹی کی پیداوار ہیں۔
سندھ کے باغی شاعر شیخ ایاز کو بغاوت کے مقدمے سے رہائی کے بعد سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ سندھڑی تے سر کیر نہ ڈیندو۔ جیسی نظم لکھنے پر شیخ ایاز کی نہ صرف کتابوں پر پابندی عائد کردی گئی تھی بلکہ انہیں جیل بھیج دیا گیا، لیکن جب ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بنے تو شیخ ایاز وائس چانسلر بنے اور جس نظم کی وجہ سے شیخ ایاز پر بغاوت کا مقدمہ بنا وہی نظم ستر کی دہائی میں ریڈیو پاکستان پر گائی جاتی تھی۔ مجھے یاد ہے فقیر عبدالغفور کی آواز میں سندھڑی تے سر کیر نہ ڈیندو( سندھڑی پر جان کون نہیں دے گا) شیخ ایاز کے دور میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے طلبہ کے ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے تعلیم مفت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن بھٹو دور میں جی ایم سید کی حامی طلبہ تنظیم جیے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن ( جساف ) کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی حامی سندھ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن ( سپاف ) یہاں پر مضبوط ہوئی۔
سہیل سانگی شیخ ایاز دور کا ایک بڑا واقعہ بھی بتاتے ہیں جس کی وجہ سے پندرہ دن تک جامعہ کو تالے لگے رہے۔ ہوا یوں کہ بیگم رعنا لیاقت علی خان گورنر سندھ تھیں اور عبدالحفیظ پیرزادہ وفاقی وزیر۔ ان دونوں کو جامعہ نے کانووکیشن میں مہمان کے طور پر مدعو کیا تھا لیکن قوم پرست طلبہ نے تقریب میں ہنگامہ کردیا۔ گورنر اور وفاقی وزیر کی توہین کی گئی، جس کی وجہ سے یونیورسٹی کو بند کردیا گیا۔ ملک کے معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی جامعہ سندھ کے طالب علم رہے اور پھر استاد بنے۔ وہ کلیہ تاریخ کے جب سربراہ تھے تب بھی شیخ ایاز ہی وائس چانسلر تھے۔ کہتے ہیں کہ وی سی کی ڈاکٹر مبارک علی سے ان بن بھی تھی لیکن اس دوران افسوس ناک واقعہ بھی ہوا جب طلبہ کے ایک گروہ نے ڈاکٹر مبارک علی پر حملہ کیا اور بعد ازاں طلبہ تنظیم کے دباؤ پر ڈاکٹر مبارک علی کو برطرف کردیا گیا، تاہم انہیں بعد میں بحال کردیا گیا۔ڈاکٹر مبارک علی کے بارے میں حال ہی میں معلوم ہوا ہے کہ انہیں پینشن کی رقم نہیں مل رہی۔
جنرل ضیا کے دور میں سندھ یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں بدنام زمانہ ڈاکوؤں کو بھی پناہ ملتی تھی۔ شیریں سومرو نامی طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ ہونے کے بعد طالب علم رہنما علی حیدر شاہ نے ایک اہم افسر پر فائرنگ کی تھی جس میں علی حیدر شاہ کو سزائے موت دے دی گئی تھی۔
سندھ یونیورسٹی جہاں علامہ آئی آئی قاضی۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ۔ غلام علی الانا، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ شاہ اور شیخ ایاز جیسے قابل لوگ وائیس چانسلر رہے۔ اس کے پہلے وائس چانسلر اے بی حلیم تھے۔ اس یونیورسٹی میں آج بھی 32 ہزار سے زائد طلبہ اور طالبات زیر تعلیم ہیں اور یہ مادر علمی آج بھی پورے سندھ کا محور و مرکز ہے۔ گذشتہ چند برسوں سے مختلف وائس چانسلرز کے ادوار میں جامعہ سندھ ہمیشہ منفی خبروں کا مرکز رہی ہے۔ آج کل یونیورسٹی میں فیسوں کے اضافے کے خلاف طلبہ و طالبات کا احتجاج جاری ہے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اچانک فیسوں میں تیس فیصد اضافہ کردیا ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پہلے ہی مشکل صورتحال ہے، اس لئے طلبہ یہ بوجھ برداشت نہیں کرسکتے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف ہے کہ ایک جانب ہائر ایجوکیشن کمیشن نے فنڈز کم کردیے ہیں تو دوسری جانب سندھ حکومت نے گرانٹ ختم کردی ہے۔ اس وجہ سے یونیورسٹی مالی بحران کا شکار ہے اور انتظامیہ کے پاس فیسوں میں اضافے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
معروف مصنف اور تعلیمی ماہر جامی چانڈیو کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ سندھ یونیورسٹی کئی برسوں سے انتظامی، اکیڈمک، اور مالیاتی بحران کا شکار ہے، جس کی ذمے داری بہرحال حکومت اور انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے، لیکن مالیاتی بحران کا بوجھ طلبہ پر ڈالنا انتہائی افسوس ناک ہے۔ ہفتے کے روز بھی سندھ یونیورسٹی کی جانب سے فیسوں میں اضافے کے خلاف طلبہ و طالبات نے حیدر آباد میں احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ جامعہ سندھ کی ایک خاتون پروفیسر بتاتی ہیں کہ سابق وائس چانسلر خزانہ خالی کرکے چلے گئے ہیں۔ ہایئر ایجوکیشن کمیشن کہتا ہے کہ تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے بھی اپنے وسائل بروئے کار لائیں اور سندھ حکومت مالیاتی بحران میں بیل آؤٹ پیکیج دینے کے لئے تیار نہیں ہے تو پھر اتنا بڑا ادارہ کیسے چلے گا؟ خاتون پروفیسر نے سابق وائس چانسلر فتح محمد برفت کے دور میں ہونے والی کرپشن کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔ دیکھا جائے تو جب معاشرے میں علم، ادب، شعور، سیاست اور زندگی کو ترقی کی پٹڑی پر لانے والی مادر علمی کو بھی کرپشن کا گڑھ بنایا جائے تو پھر ترقی نہیں تنزلی آئے گی۔ عروج نہیں زوال آئے گا۔ اور پھر سندھ کے سماج میں علم و ادب، شعور و سیاست، تاریخ و ثقافت کا رومانس تصور کی جانے والی جامعہ سندھ کو مالیاتی بحران کے نام پر سماجی بحران کی جانب نہ دھکیلا جائے کیونکہ سندھ یونیورسٹی سندھ کے سماج کا ایک علمی عکس ہے۔