الوداع قیصر محمود

زاہد حسین

گزشتہ شب کراچی کے ڈیفنس فیز 6 کی مسجد علی سے قیصر محمود کو الوداع کہنا آسان نہ تھا۔ الوداع کہنا بھی بھلا کبھی آسان ہوا ہے؟

چالیس بیالیس سال قبل جامعہ کراچی کے شعبہ صحافت میں کوئی آپ سے ایک سال سینئر ہو ، صحافت کی دنیا میں تین عشروں تک آپ کے ساتھ ساتھ رہا ہو ، زندگی کا نصف سے زیادہ حصہ آپ کے ساتھ کراچی پریس کلب کے ٹیرس پر بحثیں کرتے ، قہقہے لگاتے گزارا ہو ، آپ کے ساتھ سیاسی جلسوں اور پریس کانفرنسوں اور کراچی میں غارت گری کے دنوں کی کوریج کی ہو ، اسے الوداع کہنا دشوار تو ہونا ہی تھا ۔لیکن میرے لئے یہ دشوار تر اس لئے تھا کہ وہ جب اس دنیا سے رخصت ہوئے ، اس سے صرف اٹھارہ گھنٹے قبل میں نے ان سے فون پر بات کی تھی ۔

سیل فون کے ریکارڈ کے مطابق رات نو بج کر بیس منٹ پر ۔ سات منٹ چھیالیس سیکنڈ کی گفتگو۔ چند دن پہلے نصر اللہ چوہدری کا پیغام آیا تھا کہ قیصر محمود علیل ہیں ، اسپتال میں ہیں اور دوستوں کو یاد کر رہے ہیں ، انہیں فون کر لیجئے ۔ میں نے فون کیا تو کسی نے فون نہیں اٹھایا ۔ اگلے روز ان کے بھتیجے کا فون آیا اور مجھے ان کی کیفیت کا علم ہوا ۔ یہ بھی پتا چلا کہ دو تین دن میں گھر منتقل ہو جائیں گے ۔وہ سات منٹ چھیالیس سیکنڈ کی گفتگو اب میرے دامن میں کسی قیمتی اثاثے کی طرح ہے ۔ یاد آتا ہے کہ فون اٹھاتے ہی ان کے ‘السلام علیکم’ سے خوشی جھلکتی تھی اور وہ اپنی نحیف آواز کو توانا بنانے کی کوشش کرتے تھے ۔ ہسپتال کی ، درد کی ، طرح طرح کے ٹیسٹوں کی باتیں ۔ اور ان باتوں کے درمیان حسب روایت ان کا ٹریڈ مارک کوئی شوخ فقرہ ۔ گفتگو ختم کرنے سے پہلے میں نے ان سے کہا ۔” قیصر بھائی ، یاد ہے نا ، جب میں دل کے اور فالج کے مسائل سے دوچار ہوا تھا تو آپ نے فون پر مجھ سے کیا کہا تھا؟ آج وہی بات آپ سے کہہ رہا ہوں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بس آپ کو ہمت نہیں ہارنی ہے۔” دوسری جانب ان کی آواز بھرا گئی ۔ ” نہیں ہاروں گا ۔””بالکل نہیں ہارنی ہے ۔” جواب ملا، "بالکل نہیں ہاروں گا۔ تم دعا ضرور کرنا۔”

اب یہ گفتگو یاد آتی ہے اور برسوں پر پھیلی یادیں۔ کوئی دوست رخصت ہو جاتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنا قیمتی تھا۔ جیو، جنگ، جسارت، دی نیوز، خبر رساں ادارے۔۔۔۔ انہوں نے نہ جانے کہاں کہاں کام کیا۔ پرانی تصویروں میں وہ جگہ جگہ موجود ہیں۔ صحافت کے سابق طلبہ کی تنظیم ‘کوجا’ کی ایک تصویر ایسی ہے کہ درمیان میں ہمارے اساتذہ ڈاکٹر شریف المجاہد اور پروفیسر متین الرحمن مرتضٰی تشریف فرما ہیں اور ان کے دائیں بائیں میں اور قیصر محمود بھائی بیٹھے ہیں۔ ایک تصویر میں وہ کراچی یونیورسٹی کے آرٹس آڈیٹوریم میں بیٹھے ہیں، جہاں تین چار سال قبل یار عزیز سلیم مغل نے سابق طلبہ کے اجتماع کا اہتمام کیا تھا۔ اٹھائیس برس پرانی وہ تصاویر نہیں ملیں جو کھٹمنڈو کے مرکزی اسکوائر میں اتاری گئی تھیں۔

نیپال میں پی آئی اے کا ایک طیارہ 1992 میں پہاڑیوں سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا تھا۔ 167 مسافر اور عملے کے لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس سانحے کے چند دن بعد کچھ پاکستانی صحافی کھٹمنڈو پہنچے تھے۔ میں بھی تھا، قیصر محمود بھی تھے، زاہد حسین اور شہزاد چغتائی بھی تھے۔ وہ چار پانچ دن صبح سے رات تک ساتھ رہنے کے اور ایک عجیب و غریب رپورٹنگ کے دن تھے۔ نیپال کی سول ایوی ایشن اتھارٹی سارا ملبہ پی آئی اے اور اس کے پائلٹ پر ڈالنا چاہتی تھی۔ پی آئی اے کا دعوٰی تھا کہ نیپال نے ایوی ایشن کے جو نقشے جاری کئے ہیں ان میں وہ پہاڑیاں دکھائی ہی نہیں گئی ہیں جن سے طیارہ ٹکرایا۔ بے شمار یادیں ہیں جو زندگی کا حصہ ہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ قیصر محمود ان صحافیوں میں سے تھے جن سے صحافت کے تصور کی آبرو برقرار رہی۔ ایمان دار، با کردار، شفاف ، اور خالص پروفیشنل۔ ان دنوں ایسی خوبیوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ شہرت کمانے، مال بنانے، طاقت ور لوگوں کے بوٹ چاٹنے کا دور ہے۔ قیصر بھائی نے زندگی بھر کڑی مشقت کا راستا اپنائے رکھا اور بے حد خوش رہے۔ اس دنیا سے یوں سرخروئی کے ساتھ رخصت ہونا سراسر خوش قسمتی نہیں تو اور کیا ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔