کیا مسئلہ فلسطین پر پاکستان اور ترکی کا موازنہ بنتا ہے؟
1948 سے لیکر آج تک پاکستان نے اسرائیل کو نہ صرف تسلیم نہیں کیا بلکہ کئی ایک مقامات پر اسرائیل کے خلاف ہونے والی جنگوں میں حصہ بھی لیا ہے۔
فلسطین پر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ کا مؤقف سب پر واضح ہے۔ اس کے علاوہ ہر قسم کے اتار چڑھاؤ کے باوجود پاکستان کے ابھی تک اسرائیل کے ساتھ نہ سفارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی تجارتی، نیز پاکستان نے سرکاری سطح پہ یوم فلسطین منانے کا تہیہ بھی کر رکھا ہے۔ جبکہ پاکستانی شیعہ سنی مسلمانوں کی مسئلہ فلسطین پر دیرینہ نظریاتی ہم آہنگی وہ بنیادی عنصر ہے جس نے پاکستان کو اینٹی اسرائیل بلاک میں قائم رکھا ہوا ہے. اس کے مقابلے میں اسرائیل کے غاصبانہ قیام کے بعد ترکی کی سیکولر حکومت نے اسی دن اسرائیل کو تسلیم کرکے اپنے سفارتی و تجارتی تعلقات استوار کرلیے تھے ساتھ ترکی کو نیٹو کا عضو ہونے کی وجہ سے ہر وقت یک طرفہ طلاق کا خوف بھی رہتا ہے، البتہ موجودہ فلسطین اسرائیل جنگ میں عالمی سطح پر بیانات کی حد تک ترکی کا ظاہری مؤقف اسرائیل کے مخالف ہی رہا ہے اور تمام اسرائیلی و امریکی فشار کے باوجود حماس کا دفتر ترکی میں کافی اچھا کام کر رہا ہے اور ترکی کے عوام اور بعض نجی تنظیمیں بھی حماس کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں لیکن ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات حکومتی بیانات کی صداقت پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔ ساتھ ہی فلسطین کے مدافعین شام اور حزب اللہ لبنان کو ہر وقت خدشہ رہتا ہے کہ کہیں اردوگان اسرائیل کی بجائے مقاومت کے خلاف اعلان جنگ ہی نہ کردے۔
نتیجہ: پاکستان کے فلسطین پر دیرینہ مستحکم مؤقف کو اصلا ترکی کے ساتھ موازنہ کرنا ہی درست نہیں ہے، کیونکہ ایران کے بعد پاکستان وہ ملک ہے جس نے اسرائیل کی مخالفت کا تاوان ادا کیا ہے اور ساتھ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے پر عرب ریاستوں کا پریشر بھی برداشت کیا ہے، لہٰذا پاکستان کی فلسطین کے لیے قربانیوں کی ترکی کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں ہے، چہ جائیکہ ایران کے ساتھ مقایسہ کیا جائے کہ جہاں ایک فقیہ عادل کی حکومت فلسطینیوں کو اپنی جان سمجھ کر عسکری، سفارتی، سیاسی اور اخلاقی سپورٹ کرتی ہے اور فلسطینی بھی انھیں اپنا شفیق باپ سمجھ کر ہر معاملے میں ان سے رہنمائی لیتے ہیں جبکہ ایران، اسرائیل کو فلسطین کی وجہ سے دنیا میں اپنا پہلے درجے کا دشمن۔