قصہ بس کے سفر کا

ملک جہانگیر اقبال

اسلام آباد سے کراچی واپسی کے سفر میں ہوں۔ آتے ہوئے بھی اسی لگژری بس سے سفر کیا تھا تو سوچا واپسی بھی اسی بس میں کی جائے۔ اچھا ٹھیک ہے بھئی، مان لیا کہ واپسی پر جہاز کے ٹکٹ پچیس ہزار کے ہوئے پڑے تھے، لہٰذا مجبوراً بس میں جانا پڑ رہا ہے۔ اب خوش؟ ہاں تو بات ہورہی تھی بس کے سفر کی!

بس میں وائی فائی کی سہولت بھی ہے، لہٰذا گھنٹی بجا کر بس ہوسٹس صاحبہ کو بلایا، حالانکہ میں بس ہوسٹس کے بالکل پیچھے والی سیٹ پر بیٹھا ہوا ہوں، چِھچ چِھچ کر کے بھی بلا سکتا تھا، پر یہ غلط حرکت ہوتی ناں؟ ہاں تو میں نے گھنٹی بجائی۔ محترمہ سیٹ سے اُٹھیں، میری طرف عجیب نظروں سے دیکھا اور ہاتھ سے پانچ انگلیوں کا اشارہ کرتے ہوئے کہا، "صبر” اور پھر سیٹ پہ براجمان ہوگئیں۔ کس بات کا صبر؟ مطلب صبر کیا ہوتا ہے؟ محترمہ نے مجھ سے میری پریشانی پوچھی ہی نہیں تو صبر کس بات کا؟ اُسے کیا معلوم مجھے کون سا پھل چاہیے جو وہ صبر کروا رہی ہیں؟ اپنے آپ سے یہ سوال پوچھتا میں سیٹ پہ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔

جس قطار میں میری سیٹ ہے وہاں صرف ایک ہی سیٹ ہوتی ہے، جبکہ دوسری قطار پہ دو دو سیٹیں ہیں۔ میرے ساتھ والی قطار میں ایک عجیب شیطان فطرت میسنے انکل بیٹھے ہیں، جنہوں نے یہ سارا واقعہ دیکھا بھی اور سنا بھی۔ جب میری اُن انکل سے نظریں چھ ہوئیں (انکل نے چشمہ لگا رکھا ہے) تو میں پھیکی اور شرمندگی بھری مسکراہٹ لبوں پہ لایا، جبکہ انکل نے خلیل انکل طرز کی وسیم بادامی ہنسی ہونٹوں پہ لائی اور مجھے اکساتے ہوئے کہا، "پھر گھنٹی بجاؤ، تم نے بھی ٹکٹ خریدا ہے۔” عمومًا میں سب کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسے فسادی لوگوں کی باتوں پہ کبھی عمل نہ کیا کرو، پر یہاں میری انا نے میری مت مار دی تھی، لہٰذا جوش میں آ کر پھر گھنٹی بجا دی۔

اب کی بار محترمہ سیٹ سے اُٹھیں، فریزر کا ڈھکن کھولا اسپرائٹ نکالی، میری سیٹ کے پاس آئیں اور کرخت مردانہ لہجے میں گویا ہوئیں، "گلاس نکالیں۔” میں نے پوچھا، "کیوں؟” بولیں، "بوتل نہیں پینی؟” میں نے جواب دیا، "نہیں۔” پھر گویا ہوئیں، "کانٹی (گھنٹی) بجا رہے تھے ناں!” میں نے کہا، "ہاں، تو مجھے وائی فائی پاسورڈ چاہیے۔” بولی، "وہ مجھے نہیں پتا۔ میں نے بھی فوراً کہا، "تو پوچھ کر بتا دیں۔” اب محترمہ جگہ سے نہ ہلیں اور عجیب ناقابل بیان نظروں سے گھورتی رہیں کہ اسی اثنا میں شیطان فطرت انکل بولے، "بیٹا وائی فائی کا کیا کرنا ہے؟ موٹروے پہ سروس نہیں آتی ہے۔” میں بولا، "نہیں، مجھے چاہیے وائی فائی۔” میں بھی ڈٹ گیا۔ بس ہوسٹس نے سپاٹ لہجے میں حکم صادر کیا، "موبائل دیں۔” میں نے کہا، "آپ مجھے بتا دیں، میں لکھ لوں گا۔” یہ کہہ کر میں نے موبائل سختی سے اپنے ہاتھ میں جکڑ لیا کے کہیں محترمہ میرے ہاتھ سے موبائل جھپٹ ہی نہ لیں۔ محترمہ نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے پھر حکم دیا، "نہیں آپ موبائل دیں۔” شیطان صفت انکل پھر مکاری بھرے لہجے میں گویا ہوئے، "ہاں دے دو بیٹا موبائل، کیا ہوگیا ہے؟ کوئی ایسی ویسی شے تو نہیں نا موبائل میں؟” میں نے انکل کی طرف دیکھتے ہوئے دل میں کہا، "ابے بھوتنی کے، تو مجھ سے پٹ وٹ جائے گا!” اور موبائل بس ہوسٹس کو تھما دیا۔

"مطلب، آپ کو لگتاہے کہ مجھے پاسورڈ پتہ چل گیا تو پھر میں روز کار میں اس بس کا پیچھا کیا کروں گا تاکہ مفت کا انٹرنیٹ استعمال کر سکوں؟ یا اس پاسورڈ میں فیصل موورز کے مالک کے خوفناک راز پنہاں ہیں جو میں نے جان لیے تو کمپنی ڈوب جائے گی؟” میں نے زہریلے ناگ کی مانند طنز سے بھرپور لہجے میں بس ہوسٹس کو طعنہ یا یوں کہیں کہ ڈائلاگ مارا۔ ہوسٹس بھی کم نہ تھی، مجھے موبائل واپس تھماتے ہئ بولی، "یہ کشتی تھوڑی ہے۔” "ہیں؟ کشتی؟” میں نے حیرت سے پوچھا، لیکن محترمہ پاسورڈ لگانے کے بعد چُپ چاپ واپس اپنی سیٹ پہ بیٹھ گئیں۔

"بیٹا، ٹھیک تو کہہ رہی ہے، یہ کشتی تھوڑی نا ہے، بس کی کمپنی ہے، یہ کیسے ڈوبے گی؟ انکل نے ( ابے میں انہیں انکل ونکل نی بول رہا، عجیب قوالی نکل رہی میرے منہ سے)۔ ہاں تو اس عجیب لگ بھگ ادھیڑ عمر انسان کی طرف ترس بھری نگاہوں سے دیکھا، کان پہ ہیڈفون لگائے، اسکرین پہ گانے چلائے اور مفت کے وائی فائی سے یہ روداد لکھنے بیٹھ گیا۔ اس دوران دو بار غالباً جان بوجھ کر بس ہوسٹس صاحبہ میری کہنی کو دھکیل کے میرے پاس سے گزری ہیں۔ ابھی مجھے یہ پوچھنا تھا کہ آیا کیا اس وقت بس میں مجھ اکیلے سفر کرتے نوجوان کے ساتھ یہ ہراسمنٹ ٹائپ شے ہورہی ہے یا نہیں؟

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔