صدیوں پرانے کلام جو آج تک زندہ ہیں
موسیقی ، گائیکی اور شاعری میں کچھ ایسی تاثیر ہے کہ اگر آپ کسی شخص کو کوئی بات سمجھانے لگیں مگر وہ نہ سمجھ پائے تو وہی بات آپ اشعار، غزل، نغمہ یا کلام کی صورت میں سمجھائیں تو عین ممکن ہے کہ وہ سمجھ جائے ۔ ایسے ہی صوفیانہ کلام یا عارفانہ اشعار کی تاثیر دِلوں پہ اثر کرتی ہے اور یہ کلام دِل میں اتر جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں پرانے کلام اور قوالیاں اپنی خوبصورتی اور دِل پر اثر کرنے والی خوبی اور لطف کے باعث آج تک پرانے نہ ہوئے۔
آج کے دور میں جو کلام یا نعتیہ اشعار نوجوان نعت خواں یا ثنا خواں پڑھتے ہیں اگر انہیں اِن کی تاریخ بھی معلوم ہو تو پڑھنے کا مزہ ہی الگ ہے، کیوں کہ آج کل عام طور پر پڑھے جانے والے اردو اور فارسی نعتیہ اشعار اورعارفانہ کلام کچھ اتنے پرانے ہیں کہ شاید اس دور میں ہماری گزشتہ چوتھی نسل یعٰنی ہمارے دادا کے دادا کی بھی پیدائش نہیں ہوئی ہوگی، مگر اُن کلام میں کچھ ایسی خوبی ہے کچھ ایسی بات ہے کہ وہ آج تک زندہ ہیں اور اُن کی مقبولیت میں ذرا بھی کمی نہیں آئی اور مختلف محافل، تقریبات یا ٹی وی پروگرامز میں پڑھے جاتے ہیں۔
گزشتہ دِنوں ماہِ رمضان میں معروف گلوکار عاطف اسلم نے اپنی آواز میں ’’سلامِ عاجزانہ‘‘ ریلیز کیا جسے چند ہی گھنٹوں میں کروڑوں سوشل میڈیا صارفین نے دیکھا ۔ اس کلام کو جو بھی سنتاہے روحانیت اور پُرکیف لذتوں سے مسرور ہوجاتاہے۔
’’ مصطفیٰﷺ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ یہ کلام آج سے تقریباً 125 برس قبل غیر مُنقسم ہندوستان کے شہر بریلی میں سن 1890ء میں لکھا گیاتھا اس کے خالق اہلِ سُنّت کے اِمام ، نعتیہ شاعر اور کنزُلایمان کے نام سے قرآن شریف کا اردو ترجمہ کرنے والے عظیم اسلامی محقّق اور مُبلّغ اِمام احمد رضاخان بریلوی ہیں، جنہیں ’’اعلیٰ حضرت‘‘ کے نام سے جانا جاتاہے۔ اعلیٰ حضرت کے قلم کی تاثیر کچھ یوں ہے کہ جو لکھا سب سے مُنفرد اور اعلیٰ لکھا۔ اِس کلام کی گونج برِصغیر پاک و ہند کے گوشے گوشے میں سُنائی دیتی ہے، بلکہ یہاں سے نکل کر یہ کلام دنیا بھر میں مختلف محافلِ میلاد کے اختتام میں بطورِ خاص پڑھاجاتاہے۔ نمازِ جمعہ کے بعد مساجد، مدارس اور مختلف پروگرامز میں اسے پڑھ کر ماحول کو پرکیف بنایا جاتاہے۔ بیشمار نئے نعت خواں اور گلوکار اِسے آج بھی اپنی آواز میں پڑھتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت کا ذکر ہو تو اُن کے صرف ایک کلام کا تعارف ناانصافی ہوگی ، کیوں کہ ان کی بیشمار نعتیں ایک صدی سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی آج تک مقبول ہیں، جن میں ایک انتہائی خوبصورت اور مشہورِ زمانہ نعت ’’لَم یَاتِ نظیرُک فِی نَظرٍ مثلِ تونہ شُد پیداجانا‘‘ ہے جو سن 1900ء میں چار زبانوں اردو، ہندی ، عربی اور فارسی میں لکھی گئی ہے۔
سال 2021 کے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں معروف گلوکار علی ظفر نے واقعہ معراج پر لکھا گیا نعتیہ کلام ’’ بَلغَ العُلیٰ بِکمالہِ ‘‘(سرِلامکاں سے طلب ہوئی) ریلیز کیا جسے بےپناہ پسند کیاگیا اور مقبولیت کے ریکارڈ توڑدیے۔ یہ کلام بھی سینکڑوں برس پرانا ہے ۔ معروف نعتیہ شاعر اور صوفی بزرگ عنبر وارثی نے اِس کلام کو اردو زبان میں 1930ء میں تحریر کیا۔ اِس کلام کو صابری برادران نے 1948ء میں برطانیہ کی ایک محفلِ سماع میں قوالی کے طور پر پیش کیا تو حاضرین کے دِلوں پر سحر اور وجدانی کیفیت طاری ہوگئی۔ اس کے بعد وہ ہر محفل میں یہی قوالی پیش کرنے لگے۔ اس کلام کے خالق حضرت فقیر عنبر علی شاہ وارثی چشتی اجمیری راجستھان کے شہر اجمیر میں 1906 میں پیدا ہوئے اور 1993ء میں کراچی میں خالقِ حقیقی سے جاملے ۔
اس کے آخری شعر میں شاعر کیا خوب کہتے ہیں:
’’میرا دین عنبر وارثی بخدا ہے عشقِ محمدی
میرا ذِکروفِکر ہے بس یہی صلّو علیہِ وآلہِ‘‘
یہ تو ہوئی ایک سے ڈیڑھ صدی پرانی بات مگر اردو زبان کے کچھ اشعاروکلام ایسے ہیں جِن کی تحریر کو سات صدیاں گزر چکی ہیں ۔ اردو زبان کے پہلے شاعرصوفی شخصیت حضرت امیر خسرو جو بارہویں صدی میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے بیشمار ایسی قوالیاں لکھیں جو آج بھی پڑھی جاتی ہیں۔ جن میں مقبول ترین قوالی ’’آج رنگ ہے ری ما رنگ ہے ری‘‘ ہے۔ یہ قوالی امیر خسرو نے 12ویں صدی میں اپنے پیرومرشد حضرت نظام الدین اولیاء کی تعریف میں لکھی تھی۔ اس قوالی کو متعدد بار بالی ووڈ اور لالی وڈ کی فلموں میں نئے گلوکاروں کی آواز میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ غلام فرید صابری ، امجد صابری ، نصرت فتح علی خان ، راحت فتح علی خان، عابدہ پروین سمیت بیشمار نامور گلوکار اس کو گاچکے ہیں۔
دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاء کی درگاہ سمیت تقریباً تمام ہی درگاہوں اور اولیاء کرام کے عرسِ مبارک کے موقع پر محفلِ سماع میں بطورِ خاص اس قوالی کو پڑھا جاتاہے۔ امیر خسرو کا ایک اور کلام ’’چھاپ تِلک سب چھین لی‘‘ بھی اُسی وقت کا لکھاگیا ایک کلام ہے اور یہ بھی دیگر قوالیوں کی طرح سات سو سال گزر جانے کے بعد بھی آج تک زندہ ہے ۔
نصرت فتح علی خان کی مقبول ترین قوالی ’’سانسوں کی مالا پہ سِمروں میں پی کا نام‘‘ بھی آج سے تقریباً 6 سو سال پرانی لکھی گئی قوالی ہے ۔ 14ویں صدی میں ایک ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی شاعرہ ’’مِیرا بائی‘‘ کی جانب سے لکھا گیا یہ روحانی کلام ہندو مذہب کے بھگوان کِرشن کےلئے لکھا گیا تھا۔ میرا بائی راجستھانی زبان اور برج بھاشا (ابتدائی اردو) میں اشعار کہا کرتی تھیں۔
کئی صدی پرانے اِن کلاموں کا آج تک زندہ ہونا بِلا شبہہ حیرت کی بات ہے مگر اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ کہ آج سے 14 سو سال پہلے لکھا گیا اللہ کا کلام قرآن شریف آج تک حرف بہ حرف اپنی اصل شکل میں موجود ہے اور تاقیامت اپنی حقیقی شکل میں محفوظ رہے گا۔