ایک آواز جس نے عالم کو تسخیر کیا
بات زمانہ قدیم کی ہے جب الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے نام مروجہ لغت میں نہ تھے۔ جب بالاخر 1954 میں ریڈیو خریدا گیا تو ہم ٓاوازوں کی دنیا سے متعارف ہوۓ۔ ۔سال ہا سال تک دو آوازوں کا جادو کانوں میں رس گھولتا رہا۔ پہلی آواز امین سیانی کی تھی جو ریڈیو سیلون سے بناکا گیت مالا پیش کرتے تھے۔ یو ٹیوب آنے تک میں نے ان کو نہیں دیکھا تھا۔ دوسری آواز بی بی سی کے پروگرام سیر بین میں رضا علی عابدی کی تھی۔
بی بی سی ریڈیو کے دور میں خبروں کا مستند ترین وسیلہ اور اتنا مقبول تھا کی ایک بار کوئٹہ جاتے ہوئے صبح چھ بجے ڈرائیور نے بس کے ریڈیو پر بی بی سی کو ان کیا تو اونگھتے مسافر سب مستعد ہوگئے اور بڑی عقیدت والی خاموشی سے خبریں سنتے رہے۔ دوسری بار ایسی ہی حیرت کا سامنا مجھے چوتھائی صدی قبل کراچی کے گلشن معمار میں ہوا، جب میں صبح چھ بجے واک کیلئے نکلا تو ایک زیر تعمیر عمارت کی نچلی منزل پر کچے فرش پر ریت، سیمنٹ اور سریے کے درمیان نیم تاریکی میں مزدوروں کو دیکھا، جو چائے بنانے کیلۓ آگ روشن کر رہے تھے اور ٹرانسسٹر ریڈیو پر بی بی سی کی خبریں سن رہے تھے۔ وہ خبروں سے پہلے سنائی جانے والی بگ بین کی آواز، پھرایک مخصوص اور مشہور ارکسٹرا کی دھن اورپانچ بار کی بیپ تھی، جو کانوں کے ساتھ دماغ کو بھی الرٹ کر دیتی تھی، لیکن اس سے الگ بی بی سی پر خبر پڑھنے کا دھیما ٹھہرا ہوا نستعلیق انداز اپنی منفرد کشش رکھتا تھا۔ یہ جادو رات خبرنامے کے بعد نشر ہونے والے پروگرام ’’ سیر بین‘‘ میں سر چڑھ کے بولتا تھا۔ مجھے یاد ہے، لاہور میں پان والوں کی دکان پر ریڈیو سے اچانک سیر بین کی مخصوص ٹیون سنائی دیتی تھی تو سڑک پر چلتے قدم رک جاتے تھے۔ ’’سیر بین سننے والوں کو رضا علی عابدی کا آداب‘‘ خود میں نے کئی پروگرام سڑک کنارے کھڑے ہو کر سنے۔ گلی سے گزرا تو ہر کھلے دریچے سے یہی آواز آئی۔ اس آواز میں کیا تھا؟ اس کا تجزیہ مشکل ہے لیکن شاید واضح نکھری ہوئی پر سکون اورنستعلیق آواز کا سحر تھا۔
ایک طویل عرصے تک اس آواز کا کویٔ چہرہ نہیں تھا۔ مجھے رضا علی عابدی کی تصویر بھی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ دن مہینے سال گزرتے بیسویں صدی گزر گئی۔ میں لوٹ کے اسلام آباد آچکا تھا۔ ایک دن مارگلا ہوٹل میں لٹریری فیسٹول کے دوران لابی کے اژدحام میں کھڑا تھا کہ اچانک وہی آواز کانوں میں پڑی اور میں نے رضا علی عابدی کو دیکھا۔ وہ کسی پوتی نواسی قسم کی لڑکی کے سہارے ٓارہے تھے اور پرستاروں کے ہجوم میں سفید بال مسکراتا چہرہ اور ایک پر شفقت ہالہ لیے آگے بڑھ رہے تھے۔ مجھے بھی موقع ملا تو آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ تھام لیا۔ اپنا نام بتایا اور وہ کہا جو وہ ہزاروں سے سن چکے ہوں گے کہ میں آپ کا کتنا پرانا فین ہوں۔ معلوم نہیں کیوں وہ مجھے ہاتھ پکڑ کے کاؤنٹر کی طرف لے گئے اور بڑی شفقت سے پوچھا، ’’اقبال میاں کیا کرتے ہیں آپ؟‘‘ میں نے بتایا تو خوش ہوئے۔ ’’ماشاللہ، کہانیاں لکھتے ہیں۔ کچھ پڑھتے بھی ہیں؟‘‘ میں نے بتانا شروع ہی کیا تھا کہ کوئی ان کو اچک لے گیا۔ کوئی ایک دو گھنٹے بعد وقفہ تھا۔ جب میں چائے پی رہا تھا کہ اچانک وہ پھر نظر آئے۔ اسی لڑکی کا ہاتھ تھامے دھیرے دھیرے چلتے میری طرف آئے اور بڑے معذرت آمیز شرمندہ سے لہجے میں بولے، ’’معاف کرنا اقبال میاں، ٓاپ سے گفتگو منقطع ہوگئی تھی۔ آئیے ادھر سکون سے بیٹھتے ہیں۔‘‘ وہ مجھے ہاتھ پکڑ کے ایک گوشے میں لے گئے، جہاں صوفے ر کھے تھے۔ ان کے رویے کی شایستگی اور لہجے کی انکساری نے مجھے دم بخود کر دیا۔ میرے لۓ مشکل سے دس منٹ کی وہ صحبت ایک انوکھا تجربہ تھی۔ میں نے بتایا کہ میں ان کی سب کتابیں پڑھ چکا ہوں اور ان سے پوچھا کہ اب آپ کیا لکھ ر ہے ہیں؟ انہوں نے سوچ کے کہا، ’’اقبال میاں، کچھ تجویز کیجیے۔‘‘ میں نے کہا، ’’ہند و پاکستان کی مساجد پر لکھیے۔‘‘ چونک کر بولے، ’’ بہت خوب، ۔کیا عمدہ موضوع تجویز کیا ہے! لیکن بہت وسیع ہے۔ اب حوصلے کو بھی دیکھنا پڑتا ہے اور فرصت اور عمر کو بھی۔‘‘ میرے کچھ کہنے سے قبل ہی کوئی انٹرویو لینے والے مایٔک اور کیمروں کے ساتھ آ دھمکے اور میں وہاں سے اٹھ گیا۔ اس پہلی ملاقات کا تاثر سال بھر تک میرے ذہن میں رہا اور مجھے شدت سے احساس ہوا کہ ان کی شرافت، ملنساری، شائستگی اور انکساری نے رضا علی عابدی کی شخصیت کو کتنا بڑا بنا دیا تھا۔ مجھے اپنا اور لوگوں کا عمومی رویہ بہت ہلکا محسوس ہونے لگا تھا۔ ۔یہ حقیقت ہے کہ میں نے اس کے بعد خود کو بدلنے کی کوشش ضرور کی کہ چھوٹے بن کر آپ بڑے کیسے بن سکتے ہیں۔ سال بھر کے بعد میں نے ان کو پھر آرٹس کونسل کراچی کی اردو کانفرنس میں دیکھا۔ میں کیفے گل رنگ میں فیملی کے ساتھ لنچ کر رہا تھا کہ وہ اندر آئے۔ میری بھابی، چھوٹے بھائی اخلاق احمد کی بیوی نے کہا کہ بھایٔ جان، آپ کے پیچھے رضا علی عابدی کھڑے ہیں۔ میں ہڑبڑا کے اٹھا تو وہ آگے آئے۔ ’’اخاہ اقبال میاں کیسے ہیں؟‘‘ میں کلین بولڈ ہوگیا۔ یا مظہر العجائب۔ ان کو سال بعد میرا نام کیسے یاد رہا۔ ’’ہم بھی پیٹ پوجا کیلئے ہی آئے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا اور عبداللہ حسین ان کو لے گئے۔ اس کے بعد وہ اکثر اردو کانفرنس میں نظر آتے رہے۔ عقیدت مندوں کا ایک ہالہ ان کے گرد ہوتا تھا۔
اس بار کورونا کی نظر بندی کے بعد میں طویل وقفے سے اردو کانفرنس میں کراچی جاوں گا تو وہ شاید نہیں ملیں گے۔ حال ہی میں ان کی ایک تصویر دیکھی۔ وہ لندن میں ہمارے مہرباں عابد علی بیگ کے ساتھ تھے۔ میں نے اخلاقاً کچھ لکھا تھا۔ ان کا جواب فورا آیا۔ حسن اخلاق اور شائستگی کے اس پیکر کو رضا علی عابدی کہتے ہیں۔
سیکھی یہیں مرے دل کافر نے بندگی
رب کریم ہے تو تری رہگزر میں ہے