جگن ناتھ آزاد کا قومی ترانہ، سراسر جھوٹ
پاکستان کے قومی ترانے سے متعلق تاریخی حقائق سے پردہ اٹھاتی خصوصی تحریر
کہا گیا کہ خود قائداعظم نے جگن ناتھ آزاد سے کہا کہ وہ پانچ دن کے اندر پاکستان کا قومی ترانہ لکھ کر دیں۔ سوال یہ ہے کہ قائداعظم نے انہیں ہی کیوں کہا، اگر کسی اچھی نیت سے کسی ہندو سے لکھوانا ہی مناسب سمجھے تو جگن ناتھ کے والد جناب تلوک چند محروم سے کہتے جو اس وقت مانے ہوئے شاعر تھے، جگن ناتھ کی تو ابھی کوئی نمایاں حیثیت نہیں تھی۔
اردو شاعری پڑھنے والے سبھی لوگ بھی نہیں جانتے ہوں گے، قائد اعظم، جگن ناتھ تو کیا دوسرے اردو شاعروں کو بھی کہاں جانتے ہوں گے۔ اگر جانتے ہوں گے تو میاں بشیر احمد (ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح)، اصغر سودائی (پاکستان کا مطلب کیا)، اور ظہیر نیاز بیگی جیسے چند دوسروں کو جو مسلم لیگ کے جلسوں میں نظمیں پڑھا کرتے تھے، یا ان کی نظمیں مشہور تھیں۔ بعض لوگ تو لکھتے ہیں قائداعظم نےؒ "اپنے دوست” جگن ناتھ سے کہا، حالانکہ قائد اعظمؒ ان سے 42 سال بڑے تھے۔ نہ کسی اسکول کالج میں اکٹھے پڑھے، نہ پڑوسی رہے، بلکہ ایک ہی شہر میں بھی کبھی نہیں رہے، دوستی کیسے ہوگئی؟ جگن ناتھ آزاد ایک پاکستان مخالف ہندو اخبار میں کام کرتے تھے۔ اگر کسی مسلم لیگی اخبار میں ہوتے تو تب بھی سوچا جاسکتا تھا کہ شاید ان کا تعارف ہو۔
جگن ناتھ آزاد نے اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں ایک کتاب "میرے گزشتہ روز و شب” لکھی تھی، جو 1964 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں انہوں نے لکھا ہے کہ وہ لاہور کے ایک ہندو کانگریسی اخبار "جے ہند” میں کام کررہے تھے۔ اگست 1947 میں لاہور چھوڑ کر دہلی بھاگنا پڑا۔ کسی ترانے ورانے کا ذکر نہیں کیا۔ اگر انہوں نے ترانہ پاکستان لکھا ہوتا تو اس مختصر کتاب میں اس کارنامے کا ذکر کیوں نہ کرتے؟ قائد اعظم کی 3 جون کی تاریخی تقریر کا اردو ترجمہ نشر کرنے والے سید انصار ناصری نے "7 سے 15 اگست 1947” قائداعظم کی تمام سرگرمیوں اور ملاقاتوں کی تفصیل لکھی ہے۔ ان میں جگن ناتھ آزاد کی کسی ملاقات کا ذکر نہیں۔
قائداعظم کے اے ڈی سی کیپٹن عطا ربانی نے ڈاکٹر صفدر محمود کے پوچھنے پر صاف صاف کہا کہ جگن ناتھ آزاد نامی کسی شخص نے قائداعظم سے ملاقات نہیں کی۔ جب جگن ناتھ کے قومی ترانے کا شوشا چھوڑا گیا، میرے دوست علی تنہا ریڈیو پاکستان کے کنٹرولر تھے۔ انہوں نے اگست 1947 سے 1949 تک کا ریکارڈ چھان مارا، مگر جگن ناتھ کا کوئی ترانہ نہیں ملا۔ کیو شیٹس پر منٹوں سیکنڈوں کے حساب سے نشریات کی پوری تفصیل درج ہوتی ہے۔ ان کا نام کہیں نہیں تھا۔ جگن ناتھ آزاد نے دگیر ملی نغموں کی طرح کا کوئی ملی نغمہ لکھا ہوگا، جس طرح ہزاروں دوسرے بھی لکھے گئے ہیں، حتیٰ کہ اسرار الحق مجاز نے بھی لکھا (راوی کی لہروں پر ناچا، اک چاند اور اک تارا، پاکستان ہمارا) جو پاکستان آئے ہی نہیں، بھارت ہی میں رہے۔ جگن ناتھ نے آزاد نے واقعی قومی ترانہ لکھا ہوتا جو دعوے کے مطابق 15 اگست کو ریڈیو سے نشر ہوا اور ڈیڑھ سال قومی ترانے کے طور پر استعمال بھی ہوتا رہا تو کسی نے اس کی دھن بھی بنائی ہوگی، سازندوں نے اسے حتمی شکل دی ہوگی، پانچ چھ یا آٹھ دس گلوکاروں نے گایا ہوگا، ریڈیو کے پروڈیوسر اور افسروں یا ریکارڈنگ کمپنی والوں نے ریکارڈ کیا ہوگا، وہ درجنوں لوگ خاموش کیوں رہے؟ تمغوں کے دعوے کیوں نہ کیے؟ کسی اور نے بھی ایسے کسی شخص کا ذکر نہیں کیا جو اس مبینہ ترانے کی تیاری میں شریک رہا ہو۔
چودہ اور پندرہ اگست کو ریڈیو سے جوجو کچھ نشر ہوا، اس کا ریکارڈ موجود ہے۔ لاہور، پشاور اور ڈھاکا اسٹیشنز سے رات 11 بجے آل انڈیا ریڈیو سروس نے اپنا آخری اعلان نشر کیا تھا۔ بارہ بجے سے کچھ لمحے پہلے ریڈیو پاکستان کی شناختی دھن بجائی گئی اور ظہور آذر نے انگریزی زبان میں اعلان کیا کہ آدھی رات کے وقت پاکستان کی آزاد اور خود مختار مملکت معرض وجود میں آ جائے گی۔ رات کے ٹھیک 12 بجے ہزاروں سامعین کے کانوں میں پہلے انگریزی اور پھر اردو میں یہ الفاظ گونجے، "یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ہے۔” انگریزی میں یہ اعلان ظہور آذر نے اور اردو میں مصطفیٰ علی ہمدانی نے کیا۔ اس اعلان کے فوراً بعد مولانا زاہر القاسمی نے قرآن مجید کی سورہ فتح کی آیات تلاوت کیں، اس کے بعد ان کا ترجمہ نشر کیا گیا۔ بعد ازاں خواجہ خورشید انور کا مرتب کیا ہوا ایک خصوصی سازینہ بجایا گیا، پھر سنتو خاں اور ان کے ہم نواؤں نے قوالی میں علامہ اقبال کی نظم ’ساقی نامہ‘ کے چند بند پیش کیے۔ ان نشریات کا اختتام حفیظ ہوشیارپوری کی ایک تقریر پر ہوا۔
آدھی رات کے وقت ہی ریڈیو پاکستان پشاور سے آفتاب احمد بسمل نے اردو میں اور عبداللہ جان مغموم نے پشتو میں پاکستان کے قیام کا اعلان کیا۔ قاری فدا محمد نے تلاوت کلام پاک کی۔ ان نشریات کا اختتام جناب احمد ندیم قاسمی کے لکھے ہوئے ایک نغمے پر ہوا، جس کے بول تھے، ’پاکستان بنانے والے پاکستان مبارک ہو۔” اسی وقت ایسی ہی نوعیت کا اعلان ریڈیو پاکستان ڈھاکا سے انگریزی میں کلیم اللہ نے کیا جس کا ترجمہ بنگلا زبان میں نشر کیا گیا۔
15 اگست 1947 کی صبح ریڈیو پاکستان لاہور کی ٹرانسمیشن کا آغاز آٹھ بجے سورہ آل عمران کی منتخب آیات سے ہوا۔ آیات قرآنی کی تلاوت کے بعد انگریزی خبروں کا آغاز ہوا، جو نیوز ریڈر نوبی نے پڑھیں۔ خبروں کے بعد ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے قائداعظم کی آواز میں ایک پیغام سنوایا گیا جو پہلے سے ریکارڈ شدہ تھا۔ (اس خطاب کی آڈیو کلپ یو ٹیوب پر موجود ہے)۔ اس دن پہلا ملی نغمہ مولانا ظفر علی خاں کا "توحید کے ترانے کی تانیں اڑانے والے” نشر ہوا۔ کوئی بتائے جگن ناتھ کا قومی ترانہ کب بجا؟ ہاں، ابھی چند سال پہلے یعنی اگلی صدی میں آکر ریڈیو پاکستان نے ( پتہ نہیں کیوں؟ شاید کنفیوژن بڑھانے کیلئے ) جگن ناتھ آزاد کا وہ نغمہ ریکارڈ کیا ہے، جس کے پہلا قومی ترانہ ہونے کا دعوی’ کیا گیا، لیکن اس کے موسیقار مجاہد حسین اور گلوکار فہیم مظہر ہیں، جو 1947 میں پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔