لاک ڈاؤن اور سندھ حکومت کا دو رخی رویہ
یہ خبر نظر سے گزری کہ اندرون سندھ تمام کاروبار کھلا ہے۔ ایسا نہیں کہ وہاں کے تاجروں اور عوام نے حکومتی احکامات کی دھجیاں اڑا دیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اندرون سندھ کو بند کرنا حکومت کا مقصد ہی نہیں۔
اندھ حکومت مجبوری میں سندھ کا نام استعمال کررہی ہے، اصل مقصد تو کراچی کے تاجروں اور عوام کو پریشان کرنا اور بدلہ لینا ہے۔ اس کی دو وجوہات میری سمجھ میں آتی ہیں؛ ایک یہ کہ کراچی والوں نے پیپلز پارٹی کو کبھی بھی کراچی سے مینڈیٹ نہیں دیا، دوسرا یہ کہ اس وقت وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت مین ٹھنی ہوئی ہے، اور کراچی جو کہ پاکستان کے بجٹ میں تقریبا 60 سے 70 فیصد حصہ ڈالتا ہے اور ملک کا سب سے بڑا معاشی مرکز ہے، اس کی معاشی سرگرمیاں بند رکھ کر وفاقی حکومتی کے اہداف میں میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے۔
ابھی کچھ دن پہلے کراچی کے سب سے بڑے سرمایہ کار اور پاکستان کے سب سے بڑے ایکسپورٹر جناب ایس ایم منیر نے کراچی میں اپنی تمام انڈسٹریز بند کر دیں اور مجبورا نہ صرف سرمایہ لاہور منتقل کر دیا بلکہ خود بھی لاہور منتقل ہو گئے۔ یہ تو ایک مثال ہے، ایسے بہت سے صنعتکار اور تاجر ہیں جو کراچی سے اپنے سرمائے سمیت منتقل ہو گئے۔ وجوہات یہی ہیں؛ کراچی کے ساتھ حکمرانوں کا متعصبانہ رویہ، پانی، بجلی، گیس، سڑکیں، ٹرانسپورٹ کا نظام کچھ بھی میسر نہیں، بھتہ مافیا، پانی مافیا، قبضہ مافیا اور نہ جانے کون کون سی مافیا سرکاری سرپرستی میں کام کر رہی ہیں۔ پولیس، ایس بی سی اے، واٹربورڈ اور بلدیہ سیمت تمام اداروں میں کرپشن عروج پر ہے، سرکاری ملازمین بڑی سرکار کی سرپرستی میں کرپشن میں مصروف ہیں، پیسے دے کر پوسٹنگ لینے والا چار گنا وصول بھی کرتا یے۔ رشوت کے ریٹ کی اب کوئی انتہا ہی نہیں رہی۔ اس شہر میں قبر حاصل کرنے کے لئے بھی رشوت دینی پڑتی یے۔ اس شہر کے باسیوں کو چندے، بھتے اور ڈکیتیوں کا سامنا ہے، پولیس کی سرپرستی میں گاڑیاں، موٹر سائیکلیں اور موبائل فون چھیننے کا کام عروج پر ہے۔ ادارے تباہ ہو چکے، پہلے غلط کام کے لئے رشوت دینی پڑتی تھی اب تو صحیح کام بھی بغیر رشوت نہیں ہوتا۔
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
کہنے لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن سوچتا ہوں فائدہ کیا؟ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ اللہ ہی کچھ کرے تو کرے، ورنہ اس شہر کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔