شمالی سندھ کے ڈاکو کہاں چلے گئے
دو ہفتے قبل شمالی سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن شروع کرنے کے اعلانات دھوم دھڑکے کے ساتھ سنائی دے رہے تھے۔ یہ تب کی بات ہے جب شکارپور کے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں نے نہ صرف پولیس پر حملہ کرکے بکتر بند گاڑی پر قبضہ کرلیا تھا بلکہ اس حملے میں پولیس اہلکاروں کو شہید کرنے کے بعد ڈاکووں نے خود ہی ایک وڈیو بھی وائرل کردی تھی۔ اس صورتحال میں سندھ حکومت نے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کا اعلان کیا تھا۔
گذشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں ڈیفینس کراچی سے تیغاني قبیلے کے سردار تیغو خان تیغانی کو گرفتار کرکے سرکار نے آپریشن کا نقارہ بجا دیا تھا۔ ویسے یہ وہ ہی تیغو خان ہے جسے گذشتہ برس شکارپور پولیس نے امن ایوارڈ سے نوازا تھا۔ آپریشن شروع کرنے سے قبل وزیر اعلیٰ سندھ نے شکارپور کا دورہ کیا۔ اپنے اس دورے میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ فوج اور رینجرز سے بھی مدد لیں گے۔ دو تین اضلاع کی پولیس میں اکھاڑ پچھاڑ کے بعد پولیس نے گڑھی تیغو کا محاصرہ کیا۔ گویا یہ آپریشن کی ابتدا تھی۔ اس آپریشن میں ڈاکووں کے ٹھکانے جلائے گئے۔ روایتی طریقے سے خواتین اور بچوں کو گرفتار کیا گیا۔ کچھ ڈاکوؤں کو مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعوا بھی کیا گیا۔
جاری کردہ وڈیوز میں دکھایا گیا کہ ایس ایس پی صاحبان خود آپریشن کی کمان سنبھالے ہوئے پسینے سے شرابور ہو رہے ہیں۔ سب نے یہی سمجھا کہ اب شمالی سندھ کے پانچ چھہ اضلاع میں ڈاکوؤں کی خیر نہیں۔ اس طرح کی خبریں بھی آنے لگی تھیں کہ پولیس نے بین الصوبائی داخلی و خارجی راستوں پر بھی چوکیاں قائم کردی تھیں اس لئے ڈاکووں کے کہیں بھی نکل جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو رہا۔ پھر اچانک یہ خبر سنی کہ بڑی منصوبہ بندی کی خاطر فی الحال آپریشن کو روک دیا گیا ہے۔ اب دو ہفتے سے آپریشن کی بیل گاڑی گڑھی تیغو پر ہی رکی ہوئی ہے۔ خدا جانے آپریشن دوبارہ کب شروع ہوگا مگر بیل گاڑی میں بندھے ہوئے بیل بھوکے پیاسے مر رہے ہیں۔ ہر طرف سناٹا ہے چوکیوں میں مورچہ بند جوانوں کی حالت بھی بیل گاڑی میں بندھے ہوئے بیلوں سے مختلف نہیں۔
ابھی دو روز قبل شکارپور کے علاقے چک سے ڈاکو سابق ضلع ناظم اور ایم این اے غوث بخش مہر کے فرزند عارف مہر کے دو ملازمین کو زرعی فارم سے اغوا کرکے لے گئے اور یہ برقی پیغام بھیجا کہ شکارپور پولیس نے ہمارے خاندان اور اہل و عیال کو رہا نہیں کیا تو مغویوں کو قتل کردیں گے۔ سابق وفاقی وزیر غوث بخش مہر شکارپور کی انتہائی با اثر شخصیت ہیں جن کا آج کل جی ڈی اے سے تعلق ہے۔ ان کے چھوٹے فرزند شہریار مہر جی ڈی اے کے رکن سندھ اسمبلی ہیں۔ غوث بخش مہر قبائلی جرگوں کے حوالے سے بھی شہرت رکھتے ہیں اور مہر قبیلے کے سردار بھی ہیں۔ اس طرح غوث بخش مہر کے بیٹے کے زرعی فارم کے ملازمین کو اغوا کرکے ڈاکووں نے ایک بار پھر سرداروں اور پولیس کی رٹ کو چیلنج کردیا۔ یاد رکھا جائے کہ شمالی سندھ میں ڈاکو پولیس اور سرداروں کی پناہ کے بغیر کچھ بھی نہیں ہیں یوں سمجھیں کہ سرداروں اور پولیس کی مدد کے بغیر ڈاکو صفر بٹہ صفر ہیں۔
شمالی سندھ کے سات اضلاع میں دریائے سندھ کے دونوں کناروں سے متصل جنگلات کو کچا کہا جاتا ہے۔ سندھ میں کچے کے جنگلات سے اسلحے کا کاروبار شروع ہوکر شہروں تک پھیلتا ہے اور شہروں سے اسلحہ کچے کے مختلف علاقوں میں منتقل ہوتا ہے۔ یہ اسلحہ کچے میں تو نہیں بنتا ہوگا یہاں تو روسی، چینی اور امریکی برانڈ کا اسلحہ بھی وافر مقدار میں دستیاب ہے۔ یہاں رائفل اور کلاشنکوف کی تو کوئی اوقات ہی نہیں۔ اینٹی ایئر کرافٹ گن، راکٹ میزائل، جی تھری اور سیون ایم ایم سے لے کر بھاری سرکاری اسلحہ بھی موجود ہے۔ اس تمام صورتحال میں ہر ذی شعور انسان پہلا سوال تو یہ کرتا ہے کہ آخر ڈاکوؤں کے پاس اتنے بھاری بم بارود کہاں سے آتے ہیں۔ یہ اسلحہ کون لاتا ہے؟ اس کاروبار میں کون کون ملوث ہے؟ کیا پولیس افیون پی کر سو جاتی ہے یا پھر افسران کچے کے اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کا کاروبار کرتے ہیں؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ سندھ کے سات اضلاع کے قبائلی سردار وں یا سردار زادوں کی کیا شراکت داری ہے؟ انہیں بھی کوئی حصہ ملتا ہے کہ ایوانوں میں کوئی بات نہیں ہوتی؟ ایوانوں میں بھلا بات کیسے ہو سکتی ہے۔ یہی سردار، نواب، سردار زادے، نواب زادے ہی تو ایوانوں میں نسل در نسل سے موجود ہیں۔ حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا کہ جیکب آباد، کشمور، شکارپور، سکھر، گھوٹکی، لاڑکانہ اور خیرپور کے اضلاع میں ڈاکوؤں کی موجودگی، اسلحے کے کاروبار، اغوائے برائے تاوان اور قبائلی تنازعات میں کن کن قبائلی سرداروں، نوابوں اور چھوٹے بڑے خانوں کا ہاتھ ہے، مگر یہ یقین سے کہتا ہوں کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے جاری کشت و خون میں ان سب کا بلواسطہ یا بلا واسطہ ہاتھ ضرور ہے۔ ریچھ کتوں، مرغوں اور دیگر جانوروں کو لڑوانے کے شوقین یہ سردار اسی طرح اپنے قبیلے کے انسانوں کو دوسرے قبیلے کے انسانوں سے لڑوانے ہیں۔ یہی ان کا سب سے بڑا محبوب مشغلہ ہے کہ انسانوں کو لڑواؤ، قبائل کو لڑوا کر پھر ان پر حکومت کرو۔ غریب کی بیٹی کو خون بہا یا پھر سنڱ چٹی( عوض جرمانہ ) کے طور پر دوسرے قبیلے کے حوالے کرو۔ سپریم کورٹ کی جانب سے سندھ میں قبائلی جرگوں پر پابندی کی باوجود سندھ میں جرگوں کا طوفان کبھی تھم نہیں سکا۔ پولیس پروٹوکول میں ضلعی انتظامیہ کی نگرانی میں بیس بیس چالیس چالیس انسانوں کے قتل کے جرگے ہوتے ہیں۔ ریاست کے اندر ریاست کہا جائے یا پھر ماورائے عدالت کہا جائے مگر قبائلی جرگے دیدہ دلیری سے ہو رہے ہیں جو کہ میڈیا میں رپورٹ بھی ہو رہے ہیں۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اس معاملے میں عدلیہ اپنے فیصلوں کی لاج کب رکھے گی؟
دیکھا جائے تو سندھ کے شمالی اضلاع میں مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے ڈاکو، قبائلی سردار، قبائلی جرگے، قبائلی فسادات اور پولیس اور انتظامیہ ایک ہی لڑی میں پروئی ہوئی ریاستی نظام کے وہ دانے ہیں جو ہر وقت ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اگر یہ کہیں ایک دوسرے سے الگ بھی ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو تحفظ دیتے ہیں اور مل کر پورے ریاستی نظام، عدالتی سرشتے اور حکومتی رٹ کو ناکام بناتے ہیں، کیونکہ ان سب کی جڑیں ریاست، حکومت اور عدلیہ میں پیوست ہیں۔ اس طرح یہ سب مل کر پورے معاشرے کو ڈاکو راج میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ سندھ میں ڈاکو راج خود ایک مضبوط سسٹم کی صورت میں موجود ہے جس کو انگریز راج سے لے کر آج تک کوئی بھی توڑ نہیں سکا۔
اطلاعات ہیں کہ شمالی اضلاع میں پولیس ایک بار پھر ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ پولیس ایک بار پھر یہ تاثر دے رہی ہے کہ اب کی بار کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ مقامی صحافیوں کی یہ بھی رائے ہے کہ پندرہ دنوں کی خاموشی کے بعد پولیس کا آپریشن بے اثر ثابت ہوگا کیونکہ پندرہ روزہ وقفے کے دوران جس کو جہاں بھی جانا تھا وہ چلا گیا۔